(قسط چہارم)

سلطان القلم حضرت امام آخرالزماں علیہ السلام  کی بیان فرمودہ سورۃ الفاتحہ کی پُر معارف تفسیر

اللہ اُس ذاتِ الٰہی کا نام ہے جو تمام کمالات کی جامع ہے۔ اور اس جگہ اَلرَّحْمٰن اور اَلرَّحِیْم دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ دونوں صفتیں اللہ کے لئے ثابت ہیں جو ہر قسم کے جمال اور جلال کا جامع ہے۔ پھرلفظ اَلرَّحْمٰن کے ایک اپنے بھی خاص معنی ہیں جو اَلرَّحِیْم کے لفظ میں نہیں پائے جاتے اور وہ یہ ہیں کہ اِذنِ الٰہی سے صفت اَلرَّحْمٰن کا فیضان انسان اور دوسرے حیوانات کو قدیم زمانہ سے حکمتِ الٰہیہ کے اقتضاء اور جوہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتا رہا ہے۔ نہ کہ مساوی تقسیم کے طور پر اور اس صفتِ رحمانیت میں انسانوں یا حیوانوں کے قویٰ کے کسب اور عمل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خالص احسان ہے جس سے پہلے کسی کا کچھ عمل بھی موجود نہیں ہوتا اور یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک عام رحمت ہے جس میں ناقص یا کامل شخص کی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ صفتِ رحمانیت کا فیضان کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ کسی استحقاق کا ثمرہ ہے بلکہ یہ ایک خاص فضلِ ایزدی ہے جس میں فرمانبرداری یا نا فرمانی کا دخل نہیں اور یہ فیضان ہمیشہ خداتعالیٰ کی مشیت اور ارادہ کے ماتحت نازل ہوتا ہے۔ اس میں کسی اطاعت، عبادت، تقویٰ اور زہد کی شرط نہیں۔ اس فیض کی بنا مخلوق کی پیدائش، اس کے اعمال، اس کی کوشش اور اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی رکھی گئی ہے۔ اس لئے اس فیض کے آثار انسان اور حیوان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی پائے جاتے ہیں اگرچہ یہ فیض تمام مراتب وجود اور زمان و مکان اور حالتِ طاعت و عصیان میں جاری و ساری رہتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت نیکوکاروں اور ظالموں سب پر وسیع ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا چاند اور اس کا سورج اطاعت گزاروں اور نافرمانوں سبھی پر چڑھتا ہے۔ اور خداتعالیٰ نے ہر چیز کو اس کے مناسبِ حال قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نے ان سب کے معاملات کا ذمہ لیا ہے اور کوئی بھی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں۔ اُسی نے ان کے لئے درخت پیدا کئے اور ان درختوں سے پھل پھول اور خوشبوئیں پیدا کیں اور یہ ایسی رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے لئے مہیّا فرمایا۔ اس میں متقیوں کے لئے نصیحت اور یاددہانی ہے۔ یہ نعمتیں بغیر کسی عمل اور بغیرکسی حق کے اس بے حد مہربان اور عظیم خالقِ عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہیں۔ اور اس عالی بارگاہ سے ایسی ہی اور بھی بہت سی نعمتیں بخشی گئی ہیں جو شمار سے باہر ہیں۔ مثلاً صحت قائم رکھنے کے ذرائع پیدا کرنا اور ہر بیماری کے لئے علاج اور دواؤں کا پیدا کرنا۔ رسولوں کا مبعوث کرنا اور انبیاء پر کتابوں کا نازل کرنا یہ سب ہمارے ربّ ارحم الراحمین کی رحمانیت ہے۔ یہ خالص فضل ہے جو کسی کام کرنے والے کے کام یا گریہ و زاری یا دُعا کے نتیجہ میں نہیں ہے۔ لیکن رحیمیت وہ فیضِ الٰہی ہے جو صفتِ رحمانیت کے فیوض سے خاص تر ہے۔ یہ فیضان نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے کے لئے مخصوص ہے لیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا، عمل صالح بجا لانا اور جذباتِ نفسانیہ کو ترک کرنا شرط ہے۔ یہ رحمت پورے طور پر نازل نہیں ہوتی جب تک اعمال بجا لانے میں پوری کوشش نہ کی جائے اور جب تک تزکیہءِ نفس نہ ہو اور ریا کو کُلّی طور پر ترک کرکے خلوصِ کامل اور طہارتِ قلب حاصل نہ ہو اور جب تک خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر موت کو قبول نہ کر لیا جائے۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے حِصّہ ملا۔ بلکہ وہی اصل انسان ہیں اور باقی لوگ تو چارپایوں کی مانند ہیں۔
٭ یہاں ایک مشکل سوال ہے جسے ہم اس جگہ مع جواب لکھتے ہیں تاکہ عقلمند اس میں غور و فکر کر سکیں اور وہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں اپنی تمام صفات میں سے صرف دو صفات اَلرَّحْمٰن اور اَلرَّحِیْم کو ہی اختیار کیا ہے اور کسی اور صفت کا اس آیت میں ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم (یعنی اللہ) تمام ان صفات کاملہ کا مستحق ہے جو مقدّس صحیفوں میں مذکور ہیں۔ پھر کثرت صفات تلاوت کے وقت کثرتِ برکات کو مستلزم ہے۔ پس بسم اللہ کی آیت کریمہ اللہ کی کثرت صفات کے بیان کے مقام اور مرتبہ کی زیادہ حقدار اور سزاوار ہے اور حدیث نبوی میں ہراہم کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحسن قرار دیا گیا ہے نیز یہ آیت مسلمانوں کی زبانوں پر اکثر جاری رہتی ہے۔ اور خدائے عزیز کی کتاب قرآنِ کریم میں بڑی کثرت سے دہرائی گئی ہے۔ تو پھر کس حکمت اور مصلحت کے ماتحت اس مبارک آیت میں خداتعالیٰ کی دوسری صفات درج نہیں کی گئیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ارادہ فرمایا کہ اپنے اسم اعظم کے ساتھ انہی دو صفات کا ذکر کرے جو اس کی تمام صفاتِ عظیمہ کا پورا پورا خلاصہ ہیں۔ اور وہ دونوں صفات اَلرَّحْمٰن اور اَلرَّحِیْم ہیں۔ چنانچہ عقل سلیم بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے اس دنیا پر کبھی بطور محبوب اور کبھی بطور محبّ تجلّی فرمائی ہے اور اس نے ان دونوں صفات کو ایسی روشنی بنایا ہے جو آفتابِ ربوبیت سے عبودیت کی زمین پر نازل ہوتی ہے۔ پس کبھی تو خداتعالیٰ محبوب بن جاتا ہے اور بندہ اس محبوب کا محبّ اور کبھی بندہ محبوب بن جاتا ہے اور خداتعالیٰ اس کا محبّ ہوتا ہے اور بندہ کو مطلوب کی طرح بنا لیتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انسانی فطرت جس میں محبّت، دوستی اور سوزِ دل ودیعت کیا گیا ہے چاہتی ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہو جو اسے اپنی تجلیاتِ جمالیہ اور نعمتوں اور عطایا سے اپنی طرف کھینچے اور یہ کہ اس کا کوئی ایسا غم خوار دوست ہو جو خوف اور پریشان حالی کے وقت اس کا ساتھ دے وہ اس کے اعمال کو ضائع ہونے سے بچائے اور اس کی امیدوں کو پورا کرے۔ پس خداتعالیٰ نے ارادہ کیا کہ جو کچھ انسان کی فطرت تقاضا کرتی ہے وہ اسے عطا کرے اور اپنی وسیع بخشش کے طفیل اس پر اپنی نعمتوں کو پورا کرے۔ سو اُس نے اپنی انہی دو صفات اَلرَّحْمٰن اور اَلرَّحِیْم کے ساتھ اس پر تجلّی فرمائی۔
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں صفات ربوبیت اور عبودیت کے درمیان ایک واسطہ ہیں اور انہی دونوں کے ذریعہ انسانی معرفت اور سلوک کا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ خداتعالیٰ کی باقی تمام صفات انہی دو صفتوں کے انوار میں شامل ہیں اور ان سمندروں کا ایک قطرہ ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات نے جس طرح اپنے لئے چاہا ہے کہ وہ نوعِ انسان کے لئے محبوب اور محبّ بنے اسی طرح اُس نے اپنے کامل بندوں کے لئے چاہا کہ وہ بھی دوسرے بنی نوع انسان کے لئے اپنے اخلاق اور سیرت کے لحاظ سے اس کی ذات والا صفات کا پَرتَو ہوں اور ان دونوں صفات کو اپنا لباس اور پوشش بنا لیں تا عبودیت ربوبیت کے اخلاق کا جامہ پہن لے۔ اور انسان کے (روحانی) نشو ونما میں کوئی نقص باقی نہ رہ جائے۔ پس اُس نے انبیاء اور مرسلین کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض کو اپنی صفتِ رحمانیت کا اور بعض کو اپنی صفتِ رحیمیت کا مظہر بنایا تاکہ وہ محبوب بھی ہوں اور محبّ بھی اور اس کے فضلِ عظیم کے ساتھ آپس میں محبّت سے زندگی بسر کریں اُس نے ان میں سے بعض کو محبوبیت کی صفت سے حِصّہ وافر عطا فرمایا اور بعض دوسروں کو صفت محبّیت کا بہت سا حِصّہ دیا۔ اور اسی کا خداتعالیٰ نے اپنے وسیع فضل اور دائمی کرم سے ارادہ فرمایا۔ اور جب ہمارے آقا سیّد المرسلین و خاتم النبیین محمدﷺ کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ کی پاک ذات نے ارادہ فرمایا کہ ان دونوں صفات کو ایک ہی شخصیت میں جمع کردے۔ چنانچہ اُس نے آنحضرت کی ذات میں (آپ پر ہزاروں ہزار درود اور سلام ہو) یہ دونوں صفات جمع کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے شروع میں صفت محبوبیت اور صفت محبّیت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے تا اس سے خداتعالیٰ کے اس ارادہ کی طرف اشارہ ہو اور اُس نے ہمارے نبیﷺ کا نام محمد اور احمد رکھا۔ جیسا کہ اُس نے اس آیت میں اپنا نام اَلرَّحْمٰن اور اَلرَّحِیْم رکھا۔ پس یہ بات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں صفات کا ہمارے آقا فخر دو عالمﷺ کے علاوہ اور کوئی جامع وجود نہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ دونوں صفات خداتعالیٰ کی صفات میں سے سب سے بڑی صفات ہیں بلکہ یہ اس کے تمام صفاتی ناموں کے خلاصوں کا خلاصہ اور حقیقتوں کی نچوڑ ہیں۔ یہ ہر اُس شخص کے کمال کا معیار ہیں جو کمال کا طالب ہے اور اخلاقِ الٰہیہ کا رنگ اختیار کرتا ہے۔
پھر ان دونوں صفات میں سے کامل حِصّہ صرف ہمارے نبی سلسلہ نبوت کے خاتَمﷺ کو ہی دیا گیا ہے کیونکہ آپ کو پروردگارِ دو عالم کے فضل سے ان دونوں صفات کی طرح دو نام دیئے گئے ہیں جن میں سے پہلا محمد ہے اور دوسرا احمد۔ پس اسم محمد نے صفت اَلرَّحْـمٰن کی چادر پہنی اور جلال اور محبوبیّت کے لباس میں جلوہ گر ہوا اور اپنی نیکی اور احسان کی بناء پر بار بار تعریف بھی کیا گیا۔ اور اسم احمد نے خداتعالیٰ کے فضل سے جو مومنوں کی مدد اور نصرت کا متولّی ہے رحیمیت، محبّیت اور جمال کے لباس میں تجلّی فرمائی۔ پس ہمارے نبیﷺ کے دونوں نام (محمد اور احمد) ہمارے ربّ محسن کی دونوں صفتوں (الرحمان، الرحیم) کے مقابلہ میں منعکسہ صورتوں کی طرح ہیں جن کو دو مقابل کے آئینے ظاہر کرتے ہیں۔
٭ اور اللہ تعالیٰ نے آیت دَنَا فَتَدَلّٰى (النجم:8) اور آیت قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى (النجم: 9) میں اسی (محبوبیت اور محبّیت کے مضمون) کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر چونکہ یہ گمان پیدا ہو سکتا تھا کہ نبی کریمﷺ کو جو لوگوں کے مطاع اور اللہ تعالیٰ کے بہت عبادت گزار ہیں پروردگار عالم کا ان دو صفات سے متّصف کرنا لوگوں کو شرک کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ ایسے ہی اعتقاد کی بنا پر حضرت عیسٰیؑ کو معبود بنا لیا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ اُمّت مرحومہ کو بھی (علیٰ حسبِ مراتب) ظلّی طور پر ان دونوں صفات کا وارث بنادے۔ تا یہ دونوں نام اُمّت کے لیے برکات جاریہ کا موجب بنیں اور تا صفاتِ الٰہیّہ میں کسی خاص بندہ کے شریک ہونے کا وہم بھی دور ہو جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ اور بعد آنے والے مسلمانوں کو رحمانی اور جلالی شان کی بنا پر اسم محمد کا مظہر بنایا اور انہیں غلبہ عطا فرمایا۔ اور متواتر عنایات سے ان کی مدد کی اور مسیح موعود کو اسم احمد کا مظہر بنایا اور اُسے رحیمی اور جمالی صفات کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کے دل میں رحمت اور شفقت رکھ دی اور اُسے بلند اخلاقِ فاضلہ کے ساتھ آراستہ کیا۔… اسمِ عیسیٰ اور اسم احمد اپنی ماہیت میں ایک ہی ہیں اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں اور اپنی کیفیت کے لحاظ سے یہ نام جمال اور ترکِ قتال پر دلالت کرتے ہیں لیکن اسمِ محمد قہر اور جلال کا نام ہے اور یہ ہر دو نام محمد اور احمد، رحمٰن و رحیم کے لئے بطور ظِلّ کے ہیں۔
…پھر جب صحابہ کرام خدائے بخشندہ کی طرف سے اسم محمّد کے وارث ہوئے اور انہوں نے جلالِ الٰہی کو ظاہر کیا اور ظالموں کو چوپایوں اور مویشیوں کی طرح قتل کیا۔ اسی طرح مسیح موعود اسم احمد کا وارث ہواجو مظہر رحیمیت و جمال ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ نام اس کے لئے اور اس کے متبعین کے لئے جو اس کی آل کی طرح بن گئے اختیار کیا۔ پس مسیح موعود اپنی جماعت سمیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی صفتِ رحیمیت اور احمدیت کا مظہر ہے۔ تا خدا کا قول ’’وَ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ‘‘ (الجمعۃ: 4) پورا ہو (یعنی صحابہ جیسی ایک اور قوم بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملی)۔ اور الٰہی ارادوں کو پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ نیز رسولِ مقبولﷺ کے مظاہر پیدا ہونے کی حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے۔ صفتِ رحمانیت و رحیمیت کو بسم اللہ کے ساتھ وابستہ کرنے کی یہی وجہ ہے تا وہ محمد و احمد دونوں ناموں پر اور ان دونوں کے آئندہ آنے والے مظاہر پر دلالت کرے یعنی صحابہ اور مسیح موعود پر جو رحیمیت اور احمدیت کے لباس میں آنے والے تھے۔
٭ چونکہ ہمارے نبی خیرالبشرﷺ خاتم الانبیاء برگزیدوں کے برگزیدہ اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ ظلّی طورپر آپ میں اپنی یہ دونوں بڑی صفات جمع کر دے۔ پس آپ کو محمد اور احمد کے نام عطا کئے تا یہ دونوں نام صفتِ رحمانیت اور صفتِ رحیمیت کے لئے بمنزلہ ظِلّ کے ہوں۔ اسی لئے اس نے اپنے قول اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ کامل عبادت گزار کو ربّ العالمین کی صفات عطا کی جاتی ہیں جبکہ وہ فنا فی اللہ عابدوں کے مقام تک پہنچ جائے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ اخلاقِ الٰہیّہ کا ہر کمال اللہ تعالیٰ کے رحمان و رحیم ہونے پر منحصر ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں صفات کو بسم اللہ کے ساتھ مخصوص کر دیا۔ اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ محمد اور احمد نام ‘‘الرحمان، الرحیم’’ کے مظہر ہیں اور ہر کمال جو ان دونوں صفاتِ الٰہیّہ میں مخفی تھا وہ علیم وحکیم خدا کی طرف سے (محمد اور احمد کے) دونوں ناموں میں ودیعت کردیا گیاہے پس بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ناموں (محمداوراحمد)کو اپنی دونوں صفات کے ظِلّ اور اپنی دونوں سیرتوں کے مظہر ٹھہرایا ہے تاکہ رحمانیت اور رحیمیت کی حقیقت کو محمدیّت اور احمدیت کے آئینہ میں دکھائے۔ پھر جبکہ آنحضرتﷺ کی اُمّت کے کامل افراد جو آنحضرت کی روحانیت کے اجزاء اور حقیقتِ نبویہ کے اعضاء کی طرح ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اس نبی معصومﷺ کے آثار کو باقی رکھنے کے لئے انہیں (اُمّت کے کامل افراد کو) بھی اسی طرح ان دونوں ناموں کا وارث بنائے جیسے اس نے انہیں علومِ نبویہ کا وارث بنایا ہے۔ پس اُس نے صحابہ کو اسم محمد کے ظِلّ کی ذیل میں داخل کر دیا جو اسم کے جلال کا مظہر ہے اور مسیح موعود کو اسم احمد کے ذیل میں داخل کر دیا جو جمال کا مظہر ہے۔ اور ان سب نے اس دولت کو محض ظلّیت کے طور پر پایا ہے۔ پس حقیقت کی رُو سے اس مقام پر خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور ان دو ناموں کی تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہی تھی کہ وہ اُمّت کو تقسیم کرے اور اس کے دو گروہ کردے۔ پس اس نے ان میں سے ایک گروہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام مظہر جلال کی مانند بنایا اور وہ رسول کریمﷺ کے صحابہ ہیں جنہوں نے جہاد کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا اور ایک گروہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام مظہر جمال کی مانند بنایا اور ان کو دل کا حلیم بنایا۔ ان کے سینوں میں صلح جوئی ودیعت کی اور ان کو اعلیٰ اخلاق پر قائم کیا اور اُمّت کا یہ گروہ مسیح موعود اور اس کے متّبعین ہیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں۔ پس جو کچھ حضرت موسیٰ نے فرمایا تھا وہ بھی اور جو حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) نے فرمایا تھا وہ بھی پورا ہوا اور اس طرح خدائے قادر کا وعدہ بھی پورا ہوگیا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ (الفتح:30) کہہ کر ان صحابہ کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی جو ہمارے نبی محمد مصطفٰےﷺ کے اسم محمد کے مظہر اور خدائے قہار کے جلال کا انعکاس تھے۔ اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صحابہ کے ایک دوسرے گروہ اور ان ابرار کے امام کے متعلق اپنے قول كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ (الفتح:30) میں اس روئیدگی کی پیشگوئی فرمائی تھی جو کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ یعنی اس مسیح کے متعلق جورحم کرنے والے اور پردہ پوش (اسم) احمد کا مظہر اور رحیم و غفار خدا کے جمال کا منبع ہے۔ پس موسیٰ و عیسیٰ ہر دو نے پیشگوئی میں ایسی صفات کی خبر دی تھی جو ان کی اپنی صفات ذاتیہ سے مناسبت رکھتی ہیں۔ اور ہر ایک نے اس جماعت کو (پیشگوئی کےلئے) چُنا جن کے اخلاق اس کے اپنے پسندیدہ اخلاق کے مشابہ تھے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے الفاظ ’’اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ (الفتح: 30) میں ان صحابہ کی طرف اشارہ فرمایا جنہوں نے ہمارے نبی اکرم محمدمصطفیٰﷺ کی صحبت پائی اور انہوں نے جنگ کے میدانوں میں سختی ومضبوطی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے جلال کو سیف قاطع کے ذریعہ ظاہر کیا اور خدائے قہار کے رسول کے اسم محمدؐ کے ظِلّ بن گئے۔ آپ پر اللہ تعالیٰ، اہل آسمان اور اہل زمین میں سے راستبازوں اور نیکوکاروں کا صلوٰۃ اور سلام ہو۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے قول كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ (الفتح: 30) سے اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ (الجمعۃ: 4) کی قوم اور ان کے امام مسیح کی طرف اشارہ کیا بلکہ اس کے احمد نام کا صراحت سے ذکر کر دیا۔ اور اس مثال سے جو قرآنِ کریم میں آئی ہے آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ مسیح موعود کسی بہت سخت چیز کی طرح نہیں بلکہ صرف نرم و نازک سبزہ کی طرح ظاہر ہوگا۔ پھر یہ بھی قرآنِ کریم کے عجائبات میں سے ہے کہ اس نے احمد نام کا ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نقل کیا اور محمد نام کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نقل کیا تاکہ پڑھنے والے کو معلوم ہو جائے کہ جلالی نبی یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہ نام چُنا جو ان کی اپنی شان کے مطابق ہے یعنی اسم محمد جو جلالی نام ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے احمد نام چُنا جو جمالی نام ہے کیونکہ وہ خود جمالی نبی تھے اور انہیں شدّت اور جنگ سے کوئی حِصّہ نہیں دیا گیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نبی نے اپنے اپنے کامل مثیل کی طرف اشارہ کیا۔ پس (اے مخاطب) اس نکتہ کو یاد رکھ کیونکہ یہ تجھے شکوک و شبہات سے نجات دے گا اور جلال اور جمال کے دونوں پہلوؤں کو آشکار کرے گا اور پردہ اٹھا کر حقیقت کو واضح کر دے گا اور جب تو اس بیان کو قبول کرلے تو ہر دجّال (کے شر) سے خداتعالیٰ کی حفظ و امان میں آجائے گا اور ہر گمراہی سے نجات پا جائے گا۔
(اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 89۔128)

(اخبار احمدیہ جرمنی جون 2024ء)

متعلقہ مضمون

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • آدھی صدی کا سفر

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ