(مرتّبہ:مکرم مولانا نصیر احمد قمرصاحب۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن)

18مئي 1996ء کو ہمبرگ(جرمني) ميں واقفينِ نَو بچوں اور بچيوں کي ايک کلاس حضرت خليفةالمسيح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ منعقد ہوئي۔ اس کلاس کے دوران حضور رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا کہ اذان کے بعد کي دعا کس کو آتي ہے تو سوائے ايک آدھ کے کسي کو بھي يہ دعا ياد نہيں تھي اور اس کا ترجمہ بھي کسي کو نہيں آتا تھا۔ حضور رحمہ اللہ نے اچھي طرح سمجھا کر اذان کے بعد کي دعا اور اس کا ترجمہ سکھايا اور تاکيد فرمائي کہ آپ نظميں يا دعائيں جو کچھ بھي ياد کريں اس کے ترجمہ و مفہوم کو بھي اچھي طرح ياد کريں۔ اسي تسلسل ميں آپؒ نے يہ بھي فرمايا:

’’بچوں کو خصوصيت سے اور بڑوں کو بھي وہ آيتيں ياد کرني چاہئيں جن کي نمازوں ميں تلاوت کرتا ہوں اور اکثر مَيں فجر، مغرب اور عشاء کي نمازوں ميں بدل بدل کر تلاوت کرتا ہوں‘‘۔

حضور رحمہ اللہ نے فرمايا:

’’يہ آيتيں جو مَيں نے چُني ہيں کسي مقصد کے لئے چُني ہيں۔ اگر ان کا ترجمہ آتا ہو تو اس کا دل پر اثر پڑے گا۔ اگر مطلب نہ آتا ہو تو اس کا کوئي فائدہ نہيں‘‘۔

اسي طرح حضور رحمہ اللہ نے تاکيدي ہدايت فرمائي:

’’جو سورت تلاوت کريں اس کا ترجمہ ضرور آنا چاہئے۔ ترجمہ کو غور سے پڑھيں اور ياد کريں اور اتنا ياد کريں کہ اِدھر تلاوت ہو رہي ہو اور اُدھر آپ کے دل ميں اس کا مضمون اتر رہا ہو حتي کہ آپ کا دل قرآن کي عظمت سے بھر جائے‘‘۔ (الفضل انٹرنيشنل 7 تا 13 جون 1996ء صفحہ 9)

اس مضمون ميں وہ تمام آيات و سُوَرِ قرآني جن کي اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس جہري تلاوت والي نمازوں (يعني فجر، مغرب، عشاء اور جمعہ) ميں تلاوت فرماتے ہيں ان کا عربي متن مع ترجمہ اور اسي طرح ان کي مختصر تشريح و تفسير کو شامل کيا گيا ہے تا کہ افرادِ جماعت جب ان آيات و سُوَر کي تلاوت کريں يا سنيں تو ان کے مضامين بھي ان کے پيشِ نظر رہيں اور ان کے دل قرآن کي عظمت سے بھر جائيں۔

اس زمانہ ميں اللہ تعاليٰ نے آنحضرتﷺ کے ظلّ کامل اور آپ کے عظيم روحاني فرزند حضرت اقدس مسيح موعود و مہدي معہود کو اس لئے مبعوث فرمايا کہ تا تعليماتِ حقّہ قرآني کو ہر قوم اور ہر ملک ميں شائع اور رائج فرماوے۔ حضورؑ فرماتے ہيں:

’’خداوندتعاليٰ نے اس احقرالعباد کو اس زمانہ ميں پيدا کرکے اور صدہا نشانِ آسماني اور خوارق غيبي اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقليہ قطعيہ پر علم بخش کر يہ ارادہ فرمايا ہے کہ تا تعليماتِ حقّہ قرآني کو ہر قوم اور ہر ملک ميں شائع اور رائج فرماوے اور اپني حجت ان پر پوري کرے‘‘۔

(براہينِ احمديہ۔ روحاني خزائن جلد اوّل صفحہ596حاشيہ در حاشيہ نمبر 3)

اسي طرح آپؑ نے فرمايا:

’’جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآنِ شريف کا جو ہر ايک قوم اور ہر ايک اہلِ زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پيش کرکے ہم ہر ايک ملک کے آدمي کو خواہ ہندي ہو يا پارسي يا يوروپين يا امريکن يا کسي اور ملک کا ہو ملزم و ساکت و لاجواب کرسکتے ہيں، وہ غيرمحدود معارف و حقائق و علوم حکميہ قرآنيہ ہيں جو ہر زمانہ ميں اُس زمانہ کي حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہيں اور ہر ايک زمانہ کے خيالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلّح سپاہيوں کي طرح کھڑے ہيں… کھلا کھلا اعجاز اس کا تو يہي ہے کہ وہ غيرمحدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے۔ جو شخص قرآنِ شريف کے اس اعجاز کو نہيں مانتا وہ علم قرآن سے سخت بےنصيب ہے۔… قرآنِ شريف کے عجائبات کبھي ختم نہيں ہو سکتے اور جس طرح صحيفۂ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسي پہلے زمانہ تک ختم نہيں ہو چکے بلکہ جديد دَر جديد پيدا ہوتے جاتے ہيں يہي حال ان صُحُفِ مطہّرہ کا ہے تا خدائے تعاليٰ کے قول اور فعل ميں مطابقت ثابت ہو‘‘۔

اسي طرح فرمايا:

’’قرآنِ شريف کے عجائبات اکثر بذريعہ الہام ميرے پر کھلتے رہتے ہيں۔ اور اکثر ايسے ہوتے ہيں کہ تفسيروں ميں ان کا نام و نشان نہيں پايا جاتا۔… يہ بھي ياد رکھيں کہ قرآنِ شريف کے ايک معنے کے ساتھ اگر دوسرے معنے بھي ہوں تو ان دونوں معنوں ميں کوئي تناقض پيدا نہيں ہوتا اور نہ ہدايت قرآني ميں کوئي نقص عائد حال ہوتا ہے۔ بلکہ ايک نور کے ساتھ دوسرا نور مل کر عظمتِ فرقاني کي روشني نماياں طور پر دکھائي ديتي ہے۔ اور چونکہ زمانہ غير محدود انقلابات کي وجہ سے غير محدود خيالات کا بالطّبع محرّک ہے لہٰذا اس کا نئے پيرايہ ميں ہو کر جلوہ گر ہونا يا نئے نئے علوم کو بمنصّۂ ظہور لانا، نئے نئے بدعات اور محدثات کو دکھلانا ايک ضروري اَمر اس کے لئے پڑا ہوا ہے۔… قرآن بِلا رَيب غيرمحدود معارف پر مشتمل ہے اور ہريک زمانہ کي ضروراتِ لاحقہ کا کامل طور پر متکفّل ہے‘‘۔

(ازالۂ اوہام۔ روحاني خزائن جلد 3 صفحہ 255 تا 261)

الغرض قرآنِ مجيد اور احاديث نبويہ کي پيشگوئيوں کے مطابق تمکنتِ دين اسلام اور تعليماتِ حقّہ قرآني کي اشاعت و ترويج کے لئے اِس زمانہ ميں اللہ تعاليٰ نے حضرت اقدس مسيح موعود کو مبعوث فرمايا۔ چنانچہ آپؑ اور آپؑ کے بعد آپ کے خلفائےکرام ہي وہ مقدّس اور مبارک وجود ہيں جن کے ذريعہ سے تعليمِ کتاب و حکمت اور اشاعتِ نورِ ہدايتِ قرآني کا کام ساري دنيا ميں جاري ہے۔ اس لئے ان آيات و سُوَرِ قرآني کي تشريح و تفسير کے لئے اِنہي مطہّر و مقدّس وجودوں کي بيان فرمودہ تفاسير سے استفادہ کيا گيا ہے۔ حقائق و معارف قرآني پر مشتمل جواہرات کے يہ خزانے اپنے حسن و رعنائي اور چمک دمک ميں بےنظير اور اپني وسعت و گہرائي ميں بيکراں اور لازوال اور لامتناہي ہيں۔ اور ضرورتِ زمانہ اور اقتضائے حال کے مطابق ان کا ظہور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان پاک وجودوں کي بيان فرمودہ آسماني اور نوراني تفسيرالقرآن کے ہزارہا صفحات پر مشتمل مواد ميں سے يہ انتخاب محض بطور نمونہ کے ہے۔

اميد ہے کہ اس کا مطالعہ افرادِ جماعت کے دلوں ميں نہ صرف قرآنِ کريم کي محبّت اور اس کے عرفان ميں اضافہ کا موجب ہوگا بلکہ ان کے اندر حضرت مسيح موعود اور آپ کے خلفائےکرام کے فرمودات اور تحريرات کے بالاستيعاب مطالعہ اور تدبّر قرآن اور فہم وتعليمِ قرآن کے لئے ايک ذوق اور شوق پيدا ہوگا اور وہ انوارِ قرآني سے اپنے قلوب و اَذہان اور اپنے وجودوں کو منوّر کرکے اس نورِہدايت کو آگے پھيلاتے ہوئے خيرالرُّسُل، خاتم الانبياء حضرت اقدس محمدمصطفيٰﷺ کي اس نہايت ہي مبشّر و مبارک نويد کا مصداق بننے کي ہر ممکن سعي کريں گے جس ميں آپؐ نے اپني اُمّت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمايا تھا کہ خَيْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ يعني تم ميں سے سب سے بہتر وہ ہے جو پہلے خود قرآن سيکھے اور پھر دوسروں کو بھي سکھائے۔ اللہ کرے کہ ايسا ہي ہو۔

سورة الفاتحہ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْھِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ

ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہارحم کرنےوالا، بِن مانگے دينے والا(اور) بار بار رحم کرنے والاہے۔ تمام حمد اللہ ہي کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رَبّ ہے۔ بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دينے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ جزا سزا کے دن کا مالک ہے۔ تيري ہي ہم عبادت کرتے ہيں اور تجھي سے ہم مدد چاہتے ہيں۔ ہميں سيدھے راستہ پر چلا۔ اُن لوگوں کے راستہ پر جن پر تُو نے انعام کيا۔ جن پر غضب نہيں کيا گيا اور جو گمراہ نہيں ہوئے۔

حضرت اقدس مسيح موعود فرماتے ہيں:

ترجمہ:خدا جس کا نام اللہ ہے تمام اقسام تعريفوں کا مستحق ہے۔ اور ہر ايک تعريف اُسي کي شان کے لائق ہے کيونکہ وہ ربّ العالمين ہے۔ وہ رحمان ہے، وہ رحيم ہے، وہ مالک يوم الدّين ہے۔ ہم (اے صفات کاملہ والے)تيري ہي پرستش کرتے ہيں اور مدد بھي تجھ سے ہي چاہتے ہيں۔ ہميں وہ سيدھي راہ دکھلا جو اُن لوگوں کي راہ ہے جن پر تيرا انعام ہے۔ اور اُن راہوں سے بچا جو اُن لوگوں کي راہيں ہيں جن پر تيرا غضب طاعون وغيرہ عذابوں سے دُنيا ہي ميں وارد ہوا اور نيز اُن لوگوں کي راہوں سے بچا کہ جن پر اگرچہ دنيا ميں کوئي عذاب وارد نہيں ہوا۔مگر اُخروي نجات کي راہ سے وہ دور جا پڑے ہيں اور آخر عذاب ميں گرفتار ہوں گے۔ (ايام الصّلح۔ روحاني خزائن جلد14صفحہ 246)

٭ جاننا چاہئے کہ سورة فاتحہ کے بہت سے نام ہيں جن ميں سے پہلا نام فَاتِحَةُ الْکِتَاب ہے اور اس کا يہ نام اس لئے رکھا گيا ہے کہ قرآنِ مجيد اسي سورة سے شروع ہوتا ہے۔ نماز ميں بھي پہلے يہي سورة پڑھي جاتي ہے اور خداتعاليٰ سے جو ربّ الارباب ہے دُعا کرتے وقت اسي (سورة) سے ابتدا کي جاتي ہے۔ اور ميرے نزديک اس سورة کو فاتحہ اس لئے کہتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے اِس سورة کو قرآن کريم کے مضامين کے لئے حَکَم قرار ديا ہے۔ اور جو اخبار غيبيہ اور حقائق و معارف قرآن مجيد ميں احسان کرنے والے خدا کي طرف سے بيان کئے گئے ہيں وہ سب اس ميں بھر ديئے گئے ہيں۔ اور جن امور کا انسان کو مبدء و معاد (دنيا اور آخرت)کے سلسلہ ميں جاننا ضروري ہے، وہ سب اس ميں موجود ہيں۔ مثلاً وجود باري، ضرورت نبوت اور مومن بندوں ميں سلسلہ خلافت کے قيام پر استدلال۔

اور اس سورة کي سب سے بڑي اور اہم خبر يہ ہے کہ يہ سورة مسيح موعود اور مہدي معہود کے زمانہ کي بشارت ديتي ہے۔… اسي طرح اس سورة ميں بيان شدہ خبروں ميں سے ايک خبر يہ بھي ہے کہ يہ سورة اس دنيا کي عمر بتاتي ہے۔ …يہ وہي سورة فاتحہ ہے جس کي خبر خداتعاليٰ کے انبياء ميں سے ايک نبي نے دي۔ اس نبي نے کہا کہ ميں نے ايک قوي فرشتہ ديکھا جو آسمان سے اترا، اس کے ہاتھ ميں سورة فاتحہ ايک چھوٹي سي کتاب کي شکل ميں تھي اور خدائے قادر کے حکم سے اس کا داياں پاؤں سمندر پر اور باياں پاؤں خشکي پر پڑا اور وہ شير کے غرّانے کي مانند بلند آواز ميں پکارا، اس کي آواز سے سات گرجيں پيدا ہوئيں جن ميں سے ہر ايک ميں ايک مخصوص کلام (جملہ) سنائي ديا اور کہا گيا کہ ان گرجوں ميں سے پيدا ہونے والے کلمات کو سر بمہر کردے اور انہيں مت لکھ۔ خدائے مہربان نے ايسا ہي فرمايا ہے اور نازل ہونے والے فرشتہ نے اس زندہ خدا کي قسم کھا کر جس کے نور نے سمندروں اور آباديوں کو روشن کيا ہے کہا کہ اس (مسيح موعود) کے زمانہ کے بعد اس شان و مرتبہ کا زمانہ نہ آئے گا۔ اور مفسّرين کا اس بات پر اتفاق ہے کہ يہ پيشگوئي مسيح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے۔ سو اب وہ زمانہ آ گيا ہے اور سورة فاتحہ کي سات آيات سے وہ سات آوازيں ظاہر ہوگئي ہيں اور يہ زمانہ نيکي اور ہدايت کے لحاظ سے آخري زمانہ ہے اور اس کے بعد کوئي زمانہ اس زمانہ کي شان و مرتبہ کا نہيں آئے گا اور جب ہم اس دنيا سے رخصت ہو جائيں گے تو پھر ہمارے بعد قيامت تک کوئي اَور مسيح نہيں آئے گا اور نہ ہي کوئي آسمان سے اترے گا اور نہ ہي کوئي غار سے نکلے گا۔ سوائے اس موعود لڑکے کےجس کے بارہ ميں پہلے سے ميرے ربّ کے کلام ميں ذکر آچکا ہے۔ يہي بات سچ ہے کہ اللہ تعاليٰ کي طرف سے جو (مسيح موعود) آنے والا تھا وہ آگيا ہے اور زمين و آسمان اس پر گواہي دے رہے ہيں۔ (اعجاز المسيح۔ روحاني خزائن جلد 18صفحہ 70-73)

٭ سورة فاتحہ کے اور نام بھي ہيں جن ميں سے ايک سُوْرَةُ الْحَمْد بھي ہے کيونکہ يہ سورة ہمارے ربِّ اعليٰ کي حمد سے شروع ہوتي ہے۔

٭ اور سورة فاتحہ کا ايک نام اُمُّ القرآن بھي ہے کيونکہ وہ تمام قرآني مطالب پر احسن پيرايہ ميں حاوي ہے اور اس نے سيپ کي طرح قرآن کريم کے جواہرات اور موتيوں کو اپنے اندر ليا ہوا ہے۔اور يہ سورة علم و عرفان کے پرندوں کے لئے گھونسلوں کي مانند بن گئي ہے۔ ياد رہے کہ قرآنِ کريم ميں انسانوں کي رہنمائي کے لئے چار مضامين بيان کئے گئے ہيں۔ 1۔ علم مبدء۔ 2۔ علم معاد۔ 3۔ علم نبوت۔ 4۔علم توحيد ذات و صفات۔ اور لاريب يہ چاروں علوم سورة فاتحہ ميں موجود ہيں۔اور يہ علوم اکثر علمائے اُمّت کے سينوں ميں زندہ درگور کي حيثيت رکھتے ہيں، کيونکہ وہ لوگ سورة فاتحہ کو پڑھتے تو ہيں ليکن وہ ان کے حلق سے نيچے نہيں اترتي اور وہ اس کي ان سات نہروں کو پوري طرح جاري نہيں کرتے (تاوہ خود بھي اور دوسرے لوگ بھي ان سے فائدہ اٹھائيں) بلکہ وہ فاجر لوگوں کي سي زندگي بسر کرتے ہيں۔

٭ اس کا نام اُمُّ الْکِتَابِ بھي ہے کيونکہ قرآن شريف کي تمام تعليم کا اِس ميں خلاصہ اور عطر موجودہے۔

٭ سورة کانام اُمُّ الْکِتَابِ رکھنے کي يہ وجہ بھي ہو سکتي ہے کہ امور روحانيہ کے بارے ميں اس ميں کامل تعليم موجود ہے، کيونکہ سالکوں کا سلوک اُس وقت تک پورا نہيں ہوتا جب تک کہ اُن کے دلوں پر ربوبيت کي عزّت اور عبوديت کي ذلّت غالب نہ آجائے۔ اس امر ميں خدائے واحد و يگانہ کي طرف سے نازل شدہ سورة فاتحہ جيسا رہنما اور کہيں نہيں پاؤ گے۔ کياتم ديکھتے نہيں کہ اُس نے کس طرح اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ سے لے کر مٰلِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ تک کے الفاظ سے اللہ تعاليٰ کي عزّت اورعظمت کو ظاہر فرمايا ہے۔ پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر بندہ کے عجزاور کمزوري کو ظاہر کيا ہے۔

پھر يہ بھي ممکن ہے کہ اس سورة کو اُمُّ الْکِتَابِ اس اَمر کے پيش نظر کہا گيا ہوکہ اس ميں انساني فطرت کي سب ضرورتيں مدّنظر ہيں اور انساني طبائع کے سب تقاضوں کي طرف اشارہ ہے خواہ وہ کسب سے متعلق ہوں يا افضالِ الٰہيہ سے۔ کيونکہ انسان اپنے نفس کي تکميل کے لئے اللہ تعاليٰ کي ذات، صفات اور افعال کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور يہ بھي چاہتا ہے کہ اسے اس کے ان احکام کے وسيلہ سے اس کي خوشنودي کا علم ہو جائے، جن کي حقيقت اس کے اقوال سے ہي کھلتي ہے اور ايسا ہي اس کي روحانيت چاہتي ہے کہ عنايت ربّاني اس کي دستگيري کرے اور اس کي مدد سے اسے صفاء باطن اور انوار و مکاشفاتِ الٰہيہ حاصل ہوں اور يہ سورة کريمہ ان سب مطالب پر مشتمل ہے بلکہ يہ سورة اپنے حسنِ بيان اور قوتِ تبيان سے دلوں کو موہ لينے والي ہے۔

٭ اس سورة کے ناموں ميں سے ايک نام سَبْع مَثَاني ہے اوراس نام کي وجہ تسميہ يہ ہے کہ اس سورة کے دو حصّے ہيں۔ اس کا ايک حصّہ بندہ کي طرف سے خدا کي ثنا اور دوسرا نصف فاني انسان کے لئے خداتعاليٰ کي عطا اور بخشش پرمشتمل ہے۔

بعض علماء کے نزديک اس کا نام اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ اس لئے ہے کہ يہ سورة تمام کُتُبِ الٰہيہ ميں امتيازي شان رکھتي ہے اور اس کي مانند کوئي سورة تورات يا انجيل يا دوسرے صحفِ انبياء ميں نہيں پائي جاتي۔ اور بعض کا خيال ہے کہ اس کا نام مثاني اس لئے ہے کہ وہ خداتعاليٰ کي ايسي سات آيات پرمشتمل ہے کہ ان ميں سے ہر آيت کي قراءت قرآنِ عظيم کے ساتويں حِصّہ کي قراءت کے برابر ہے۔

اور يہ بھي کہا گيا ہے کہ اس کا نام اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ اس بنا پر رکھا گياہے کہ اس ميں جہنّم کے سات دروازوں کي طرف اشارہ ہے۔ اور ان ميں سے ہر ايک دروازہ کے لئے اس سورة کا ايک حِصّہ مقرر ہے جو خدائے رحمان کے اِذن سے جہنّم کے شعلوں کو دُور کرتا ہے۔ پس جوشخص جہنم کے ان سات دروازوں سے محفوظ گزرنا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ وہ اس سورة کي ساتوں آيات کے حصار ميں داخل ہو اور ان سے دلي لگاؤ رکھے اور ان پر عمل کرنے کے لئے خدائے قدير سے استقلال طلب کرے۔ اور تمام اخلاق، اعمال اور عقائد جو انسان کو جہنم ميں داخل کرتے ہيں وہ اصولي طور پر سات مہلک امور ہيں اور سورت فاتحہ کي يہ سات آيات ايسي ہيں جو ان مہلکات کي شدائد کو دفع کرتي ہيں۔

احاديث ميں اس سورة کے اور بھي کئي نام مذکور ہيں ليکن تيرے لئے اسي قدر بيان کافي ہے کہ يہ الٰہي اسرار کاخزانہ ہے۔

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • نُورِ ہدایت

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث