ایک معروف، انتہائی محنتی، نیک نام، محب وطن وجود، دیانتدار سرکاری افسر مکرم کنور ادریس صاحب ایک فعال، نافع الناس، نیک نام انسان۔ 90 سال کی لمبی زندگی گزار کر 3 مئی 2024ء بروز جمعۃالمبارک اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت چودھری محمد حسین صاحبؓ اور صحابیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ کے پوتے ہونے کے ناطے اور اپنے والدین مکرم چودھری عزیز احمد باجوہ صاحب اور مکرمہ عظیمہ بیگم صاحبہ کی اعلیٰ تربیت کے نتیجہ میں آپ نے سچائی، دیانت، خدمت، احساس ذمہ داری اور نفع رسانی کی اعلیٰ احمدی روایات سے خوب حصہ پایا اور پھر اللہ نے اپنے فضل سے آپ کو ان کے اظہار کے مواقع بھی بہت عطا فرمائے، الحمدللہ۔
آپ نے 1959ء میں پاکستان سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور 35 سالہ طویل عرصہ ملازمت میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قبائلی علاقہ جات میں پولیٹیکل ایجنٹ، کئی محکموں کے فیڈرل سیکرٹری اور سندھ کے چیف سیکرٹری کے طور پر خدمات بجا لانے کے علاوہ، آپ صوبہ سندھ کے ہوم سیکرٹری اور کمشنر کراچی بھی رہے۔ آپ ہمیشہ ایک نہایت ہی ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی ایمانداری کا برملا اور بےساختہ اظہار ایک دفعہ ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک اور سینئر بیوروکریٹ اور سابق سیکرٹری داخلہ جناب تسنیم نورانی صاحب نے اس طرح کیا کہ میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی بیورو کریسی میں کسی ایک ایماندار افسر کا نام بتا دیں، انہوں نے بلا توقف جواب دیا۔ ‘‘کنور ادریس’’۔ آپ کا یہ حسن کردار اپنے والد کی اُس نصیحت کا نتیجہ تھا جو انہوں نے سِول سروس میں شمولیت کے وقت آپ کو کی تھی۔ آپ کے چچا زاد کرنل یسیر باجوہ صاحب کے بیان کے مطابق کنور ادریس صاحب نے انہیں بتایا کہ ‘‘جب مَیں نے سِول سروس میں شمولیت اختیار کی تو اَبّا (چودھری عزیز احمدباجوہ صاحب) نے مجھے کہا کہ اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ کنور ادریس فوت ہوگیا ہے تو مجھے اتنا افسوس نہیں ہوگا جتنا اگر کوئی یہ کہے کہ کنور ادریس نے رشوت لی ہے تو مجھے دکھ اور افسوس ہوگا’’۔
ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کی صلاحیتوں اور نیک نامی کے سبب آپ کونجی سیکٹر میں خوش آمدید کہا گیا اور یکے بعد دیگرے کئی اہم کاروباری اداروں نے آپ کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ان میں پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن، بینکرز ایکویٹی، الغازی ٹریکٹرز، اوریکس انویسٹمنٹ بنک، ہینو پاک موٹرز اور پاکستان آٹو موبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن شامل ہیں۔ 1996ء میں حکومتوں کی تحلیل کے بعد سندھ کے عبوری وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو نے آپ کو کابینہ میں سینئر وزیر مقرر کیا۔ اور باوجود ایک گروہ کی مسلسل مخالفت کے آپ کو اس منصب پر فائز رکھا۔
مکرم کنور ادریس صاحب ایک اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ آپ ایک لمبے عرصے تک انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کراچی میں باقاعدگی سے ہفتہ وار کالم لکھتے رہے جو ایڈیٹوریل صفحہ پر شائع ہوتا تھا۔ آپ نے حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب کی مشہور سوانح حیات ‘تحدیثِ نعمت’ کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ جس سے یہ اعلیٰ کتاب انگریزی داں حلقوں میں بھی متعارف ہوئی۔
آپ کی بعض جماعتی خدمات درج ذیل ہیں۔
1۔ 1998ء تا 2007ء مجلس عاملہ جماعت احمدیہ ضلع کراچی میں سیکرٹری امور خارجہ رہے۔
2۔ 2007ء میں کنور ادریس صاحب نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی کہ جنرل پرویزمشرف نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے احمدیوں کی احمدیوں کی علیحدہ انتخابی فہرست بنانے کا جوقانون نافذ کیا ہے وہ امتیازی سلوک کا مظہر ہے۔یہ پٹیشن پانچ سال بعد 2013ء میں سنی گئی۔
3۔ آپ نے بیت الرحمٰن کراچی میں ایک لائبریر ی کے قیام کی تجویز کی اور پھر خوداس کے لئے خوبصورت الماریاں، دیگر فرنیچر اور کتب مہیا کیں۔
4۔ صوبہ سندھ کی عبوری حکومت میں وزیر بننے پر آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو دعا کے لئے خط لکھا اور حضور کا جوابی خط آیا۔ کسی اخبار نویس نے آپ کا انٹرویو کیا اور حضور کے خط کا عکس اخبار میں چھاپ دیا۔ حسب ِمعمول اس کا آغاز اللہ کے نام سے تھا۔ اس پر ایک مولوی صاحب نے آپ پر سانگھڑ شہر میں پرچہ درج کروا دیا۔ اس کیس کی تکلیف دِہ کارروائی کا آپ نے صبرو تحمل سے سات سال تک سامنا کیا۔
مرحوم نےایتاءذی القربیٰ کے جذبے کے ساتھ بہت سے ضرورت مند طلبا، بیواؤں، مساکین کے وظائف لگا رکھے تھے۔ مخالفین کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا سلوک کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ خود پر کیس کے مدعی مولوی کی جانب سے کیس ختم ہونے کے بعد مالی مدد کی درخواست کو قبول کرکے ایک خطیر رقم سے اس کی مدد کی۔ آپ نے اپنے بہن بھائیوں اور عزیزوں کا آخر وقت تک بہت خیال رکھا۔ اس ضمن میں راقم نے آپ کی ہمشیرہ سے خود بھی سنا۔
گزشتہ 23 سال سے ایک جماعتی حلقے میں رہائش اور امیر صاحب جماعت کراچی کی مجلس عاملہ میں ایک دہائی اکٹھے رکن رہنے کے سبب راقم کو ان سے ملاقات کے مواقع بکثرت ملے۔ ہر بار ان کے مزاج کی سادگی، عاجزی اور جماعت سے دلی لگاؤ تازہ اَور بھلی لگتی۔ اس سے بھی بہت پہلے جب وہ کمشنر کراچی تھے جمعہ کے موقع پر ان کو پاکستانی جھنڈا لگی بڑی سی گاڑی میں احمدیہ ہال میں آتے دیکھنا اور نماز کے بعد ملنے پر ویسا ہی عاجز و منکسرالمزاج پانا ایک اَنمٹ یاد ہے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور ان سے ویسا ہی بھلا سلوک کرے جیسا وہ یہاں اس کے بندوں سے کرتے رہے۔ ان کے لواحقین کو مرحوم کی خوبیاں زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

متعلقہ مضمون

  • آدھی صدی کا سفر

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

  • نُورِ ہدایت