آج سے 50 سال قبل 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدی مسلمانوں کو بعض قانونی اور سیاسی اغراض کی خاطر غیرمسلم قرار دیا تھا۔ اسمبلی کی کارروائی سے قبل جماعت احمدیہ نے تحریری مؤقف ایک محضرنامہ کی صورت میں تیار کرکے اسمبلی کے ہرممبر کو مہیا کر دیا تھا جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد قرآن و حدیث کی رو سے ثابت کئے گئے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اسمبلی میں پہلے دو روز یہ محضرنامہ پڑھ کر سنایا اور اگلے گیارہ روز اس پر بحث ہوتی رہی۔ حیرت والی بات یہ ہے کہ اس تمام کارروائی کے دوران ایک دن بھی ختمِ نبوت پر بحث نہیں کی گئی۔ بلکہ اگر کسی نے یہ نکتہ اٹھایا تو وہ جماعت احمدیہ مسلمہ تھی جس نے اس پر پوری تفصیل سے روشنی ڈالی اور یہ بھی ثابت کیا کہ تمام دوسرے مسلمان فرقے بھی کسی نہ کسی مصلح کے انتظار میں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ یہ کہتی ہے کہ وہ عظیم الشان مصلح رسول اللہﷺ کے غلاموں میں سے ہوگا جبکہ دوسرے موسوی مسیح کے منتظر ہیں۔ غرض جماعت احمدیہ نے ڈنکے کی چوٹ پر ختمِ نبوت پر اپنا حقیقی ایمان واضح کیا جبکہ دوسروں نے اس مسئلے پر نہ تو کوئی رائےزنی کی اور نہ ہی کوئی سوال اٹھایا اور کسی کو یہ ہمّت نہ ہوئی کہ وہ ختمِ نبوت یا اختلافی مسائل پر بحث کرتے۔ ان کے علماء ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور پرانے الزامات دُہراتے رہے اور قرآن و حدیث کے دلائل پیش کرنے سے عاجز رہے۔ اس محضرنامہ میں ختمِ نبوت اور فات مسیح اور دیگر اہم عقائد پر ہی بحث نہیں کی گئی بلکہ یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ کیا حکومت وقت یا کسی اسمبلی یا ایوان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کا عقیدہ خود بنائیں اور پھر اس فرقے کو پابند کریں کہ وہ اس پر عمل کرے۔ محضرنامے کے آغاز میں ہی ایک اصولی سوال دریافت کیا گیا کہ کیا کوئی اسمبلی اس بات کی مجاز ہے کہ اوّل:کسی شخص کا یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو۔ دوم:مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرد کا مذہب کیا ہے؟
اور پھر اس بات کو قرآنی ارشادات سے ثابت کیا گیا۔ جس کا جواب اسمبلی سے نہ اس وقت بن پڑا اور نہ ہی آج۔ اسی محضرنامہ میں مسلمان کی تعریف پر بھی تفصیلی بحث موجود ہے اور پھر یہ بھی کہ کوئی فرقہ آج تک اس بات پر متفق نہیں ہوا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر قرار دینے کے لیے ایسی تعریف گھڑ لیتا ہے جس سے وہ مسلمان ثابت ہو اور دوسرے غیرمسلم۔ اس سلسلے میں 1953ء کی منیر انکوائری رپورٹ کا بھی ذکر کیا گیا کہ عدالت نے جب یہ سوال اٹھایا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے تو کوئی فرقہ مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں ہوسکا۔ پھر فتاویٰٔ کفر کا ذکر کیا گیا کہ اگر علماء کے فتاویٰٔ تکفیر کو دیکھا جائے تو پھر کوئی مسلمان نہیں رہتا۔ اس ذکر کے بعد مسئلہ ختم نبوت پر تفصیلی بحث کی گئی۔ دوسرے علماء کی بیان کردہ آیت خاتم النبیین کی تفاسیر بھی تحریر کی گئیں۔ انکار جہاد کے الزام پر بھی تفصیلی بحث کی گئی اور علماء سلف کے حوالہ جات درج کیے گئے۔ غرض اس محضر نامے میں پوری تفصیل درج ہے اور یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو جماعت کے عقائد پر ہمیشہ ہمیش کے لیے بطور گواہ ہے۔ آخر میں بانی جماعت احمدیہ کے الفاظ میں پُر درد انتباہ کے بعد درج ذیل دعائیہ کلمات پر محضرنامہ کا اختتام کیا گیا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطاء فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنّت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں اور پاکستان ترقی و سربلندی اور عروج و اقبال کے اس عظیم الشان مقام تک پہنچ جائے جس کا تصور جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے 1947ء میں درج ذیل الفاظ میں پیش کیا تھا۔
ہم نے عدل و انصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے۔ یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی اَمن قائم کرے گا اور ہر ایک کو اس کا حق دلائے گا، جہاں روس اور امریکہ فیل ہوا صرف مکہ اور مدینہ ہی ان شاءاللہ کامیاب ہوں گے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(اخبار احمدیہ جرمنی ستمبر 2024ء)