حسین ابنِ علی پر رحمتیں مولائی سرمد کی
کہ جس نے آبیاری خوں سے کی دینِ محمد کی
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
ہزاروں رحمتیں عشاقِ حق پر ربّ امجد کی
ہموم دین میں منظر کربلا کا پیش رہتا تھا
بیاں ہو کس زباں سے دلفگاری اپنے احمد کی
بوقت عصر معماروں نے اتنا کام پایا ہے
مزیّن ہو رہی ہے پھر عمارت سیزدہ صد کی
لگا دو زور سارا تاسفر طے جلد ہو جائے
یہ ہے مینارہ بیضا وہ چوٹی سبز گنبد کی
حسینی قافلہ ہمت نہ ریگستان میں ہارے
یہ کھیتی خوں سے سینچی جائے گی باغِ محمد کی
پڑی رہتی ہے کیوں لوگو تمہیں ہر وقت دنیا کی
جہاں آخر کو جانا ہے کرو کچھ فِکر مرقد کی
رفیقوں سے کہو کشتی کنارے لگنے والی ہے
نظر آنے لگی ہے روشنی قصر مشیّد کی
ضیاءِ ماہِ کامل پھیلتی جاتی ہے عالم میں
شب تاریک میں دکھلائے گی جو راہ مقصد کی
کلید فتح ہے تبلیغ و تنظیم اور قربانی
اسی سے ایک دن گردن جھکے گی ہر مقلّد کی
(حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکملؓ صاحب۔ ماہنامہ الفرقان ربوہ جولائی 1960ء)
(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 45)