مکرم محمد طاہر ندیم صاحب۔ عربی ڈیسک یوکے

تاريخِ اديان و فِرَق گواہ ہے کہ تازہ بتازہ الٰہي ہدايت کے انقطاع اور نور نبوت سے دوري کي وجہ سے دين ميں اختلاف راہ پا گيا اوراس صورتحال نے فرقوں کو جنم ديا۔ صحيح راستے سے انحراف کي وجہ سے ان فرقوں کے عقائد بگڑتے رہے اور بدعات و خلافِ شريعت امور کي بہتات ہوتي گئي۔ عيسائيوں کي مثال ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے ايک ضعيف انسان کے بارہ ميں اتنا غلو کيا کہ اسے خدا ہي بنا ڈالا۔ شايد يہي حال بعض اسلامي فرقوں کا ہوا۔ شيعہ حضرات نے بھي ہر سال حضرت امام حسينؓ کي ياد مناني شروع کي تو اسے بعض روايات سے تقويت دي گئي۔ يعني بعض ايسي روايات نقل کي گئيں جن ميں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت حسين کو ان کي ولادت کے بعد اپني گود ميں اٹھايا تو آپ کي آنکھيں آنسوؤں سے بھر آئيں۔ جب آ پ سے اس بارہ ميں پوچھا گيا تو آپ نے فرمايا: جبريل نے مجھے بتايا ہے کہ ميري امت ميرے اس بيٹے کو قتل کردے گي۔

اس حديث اور اس طرح کي ديگر روايات سے يہ استدلال کيا گيا کہ آنحضرتﷺ کي اقتداء ميں ساري امّت کا فرض ہے کہ ہر سال ايساکرے۔ پھر اس کا م کا بہت زيادہ اجر بھي بيان ہونے لگا۔حتي کہ بعض آئمۂ شيعہ کي طرف منسوب بعض اقوال بھي اس کي تائيد ميں پيش کئے جانے لگے۔ مثلاً حضرت امام علي الرضا کي طرف يہ قول منسوب کيا جاتا ہے کہ آپ نے فرمايا کہ ہر قسم کا جزع فزع کرنا اور رونا پيٹنا مکروہ ہے ليکن حسين کي شہادت پر جزع فزع اور رونا مکروہ نہيں بلکہ ماجور ہے۔ يعني اس کا اجر وثواب ملے گا۔

(الأمالي تاليف محمد بن الحسن الطوسي صفحہ162روايت نمبر 268)

علاوہ ازيں شيعہ کتب اس موقعہ پر رونے کے فضائل سے بھري پڑي ہيں۔ مثال کے طور پر لکھا ہے کہ جس نے اس موقعہ پر 100 لوگوں کو رلايا اس کے لئے جنت ہے۔ پھر يہ تعداد کم ہوتے ہوتے اسي روايت ميں يہاں تک پہنچتي ہے کہ جو خود رويا اوراس نے غمِ حسينؓ ميں ايک شخص کو بھي رُلا ديا اس کے لئے بھي جنت ہے۔

(مکيال المکارم تاليف ميرزامحمد تقي الاصفہاني جلد2 صفحہ159)

ظاہر ہے کہ اسي اجر و ثواب کو کثرت سے حاصل کرنے کي خواہش نے اس غم و حزن کے مختلف اور بعض اوقات متشدّد ترين مظاہر کو جنم ديا ہے۔ حتّٰي کہ بعض نماز روزہ وغيرہ اعمال کي پابندي تونہيں کرتے بس محرّم کے ان دس دنوں ميں رونے اور رُلانے کو ہي اپني نجات کے لئے کافي سمجھ بيٹھے ہيں۔ بعض ايسے غالي شيعہ حضرات کے بارہ ميں حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں: ’’ان کے نزديک اگر اعمال کي ضرورت ہے تو فقط اتني کہ ان(امام حسينؓ۔ناقل) کے مصائب کو ياد کرکے آنکھوں سے آنسو گرا لئے، يا کوئي سينہ کوبي کرلي۔ سارے اعمالِ حسنہ کي روح يہي اشک باري اور سينہ کوبي ہے۔ مگر ميں نہيں سمجھتا کہ اس کو نجات سے کيا تعلق ہے؟‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 701۔ ايڈيشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

بلاشبہ حضرت امام حسينؓ نہايت مقدّس اور بزرگ امام تھے۔ليکن کيا حضرت امام حسينؓ کا مرتبہ اور مقام آنحضرتﷺ سے بڑھ کر ہے؟ يہ درست ہے کہ آپ نے حق و صداقت کے لئے اپني جان کي قرباني دي مگر آنحضرتﷺ کو جو جو دکھ اور تکاليف اُٹھانا پڑيں کيا وہ امام حسينؓ کي اذيتوں سے کم تھيں؟ پھر آنحضرتﷺ کے وصال کا صدمہ کيا امام معصوم کي شہادت سے کم تھا؟ پھر حضرت علي، عمراور عثمان کو شہيد کر ديا گياکيا ان کي شہادت کے واقعات کم اندوہ گيں تھے۔ کيا حضرت عبداللہ بن الزبير اور حضرت حمزہ اور حضرت امام حسينؓ کے بڑے بھائي امام حسنکي شہادت کم المناک تھي؟ پھر ان سب کو نظر انداز کرکے صرف حضرت امام حسينؓ کي شہادت کو ہر سال ايک ايسے مخصوص طريق پر منانے سے خود آئمۂ شيعہ نے بھي روکا ہے۔ مثلاً خود حضر ت امام حسينؓ نے اپني بہن زينب کو وصيت کي تھي کہ ميري وفات پر گريبان چاک نہ کرنا، بال نہ کھولنا، منہ پر طمانچہ نہ مارنا۔

(کتاب الفتوح تاليف احمد بن اعثم الکوفي متوفي314ھ ج5ص84)

علاوہ ازيں نہج البلاغہ، تفسير الصافي اور تفسيرالقمي وغيرہ ميں بھي ايسے امور کي مناہي بيان ہوئي ہے۔

حضرت امام حسينؓ نہايت مقدس اور بزرگ امام تھے۔ ايسے مقدّس و مطہر وجود کے اسوہ کي پيروي کرنا ہر مومن کا شيوہ ہونا چاہئے۔ حضرت مسيح موعود نے فرمايا ہے:

’’حسينؓ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن برگزيدوں ميں سے ہے جن کو خداتعاليٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپني محبّت سے معمور کر ديتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت ميں سے ہے اور ايک ذرہ کينہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ايمان ہے اور اس امام کي تقويٰ اور محبّتِ الٰہي اور صبر اور استقامت اور زُہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کي ہدايت کے اقتداء کرنے والے ہيں جو اس کو ملي تھي۔ تباہ ہو گيا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامياب ہو گيا وہ دل جو عملي رنگ ميں اس کي محبّت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ايمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقويٰ اور استقامت اور محبّت الٰہي کے تمام نقوش انعکاسي طور پر کامل پيروي کے ساتھ اپنے اندر ليتا ہے‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ653-654)

حضرت امام حسينؓ کي شہادت کو منانے کا صحيح طريق کيا ہے؟ اس کي وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں: ’’ان (امام حسينؓ۔ناقل) کي شان ميں بہت بڑا غلو کيا گيا ہے… جب تک وہ طريق اختيار نہ کيا جاوے جو آنحضرتﷺ کا تھا اور جس پر حضرت عليؓ اور حضرت امام حسينؓ نے قدم مارا تھا کچھ بھي نہيں مل سکتا۔ يہ تعزيئے بنانا اور نوحہ خواني کرنا کوئي نجات کا ذريعہ اور خداتعاليٰ سے سچا تعلق قائم کرنے کا طريقہ نہيں ہو سکتا خواہ کوئي ساري عمر ٹکريں مارتا رہے۔ سچّي پيروي الگ چيز ہے اور محض مبالغہ ايک الگ اَمر ہے۔جب تک انسان انبياء اور صلحاء کے رنگ ميں رنگين نہيں ہو جاتا اُن سے محبّت اور ارادت کا دعويٰ محض ايک خيالي اَمر ہے جس کا کوئي ثبوت نہيں ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 533۔ايڈيشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ نے فرمايا:

’’انہوں نے فقط اتنا ہي سمجھ ليا ہے کہ امام حسين کے لئے رو پيٹ لينا ہي نجات کے واسطے کافي ہے۔ يہ کبھي ان کو خواہش نہيں ہوتي کہ ہم امام حسينؓ کي اتباع ميں ايسے کھوئے جاويں کہ خود حسين بن جاويں۔ حالانکہ اللہ تعاليٰ تو کہتا ہے کہ اس وقت تک نجات نہيں جب تک انسان نبي کا روپ نہ ہو جاوے… مَيں کھول کر کہتا ہوں کہ جس قدر انبياء و رُسل گذرے ہيں ان سب کے کمالات حاصل ہو سکتے ہيں۔ اس لئے کہ ان کے آنے کي غرض اور غايت ہي يہي تھي کہ لوگ اس نمونہ اور اُسوہ پر چليں‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 407۔ايڈيشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

سو محرّم الحرام کو منانے کا بہترين طريق يہ ہے کہ ہميں خود حسينؓ بننے اور ان کے رنگ ميں رنگين ہونے کي کوشش کرني چاہئے اور اس کے لئے کوئي خاص دن مقرر کرنے کي ضرورت نہيں ہے بلکہ يہ تو پوري زندگي پر محيط ايک جُہد مسلسل کا نام ہے۔ليکن محرّم الحرام کے ايام ميں خاص طور پر ہميں کيا کرنا چاہئے اس کے بارہ ميں حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ فرماتے ہيں:

’’آج کل محرّم کے دن ہيں۔ اس سلسلے ميں ايک بڑي ضروري بات ميں جماعت کو ياد کرانا چاہتا ہوں کہ آنحضرتﷺکے اہلِ بيت کے ساتھ ہر عاشق کو ايک روحاني تعلق ہونا چاہئے…… جماعت احمديہ اس طرف خاص توجہ کرے اور ان ايام ميں خصوصيت کے ساتھ آنحضرتﷺ اور آپؐ کے اہلِ بيت پر بکثرت درود بھيجے۔ کيونکہ حضوراکرمﷺ کي جسماني اولاد آپﷺ کي روحاني اولاد بھي تھي۔ صرف جسماني اولاد نہيں تھي۔ اس لئے نور علی نور کا منظر نظر آتا ہے۔ حضرت امام حسن، حضرت امام حسين اور باقي بہت سے ائمہ جو آپؐ کي نسل سے بعد ميں پيدا ہوئے بہت بڑے بزرگ تھے اورعظيم الشان روحاني مصالح کو سمجھنے والے، صاحبِ کشف و الہام تھے…… حضرت محمدمصطفيٰﷺ کے عشق اور آپؐ کے اہلِ بيت کے عشق ميں ہم آگے ہيں، پيچھے نہيں ہيں۔ يہ بات جماعت کو نہيں بھلاني چاہئے۔ يہي بات حضرت مسيح موعود نے ہر جگہ لکھي، فرماتے ہيں ؎

جان و دِلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است

کتنا عظيم الشان محبّت کا اظہار ہے۔ جو صحيح معنوں ميں آلِ محمدؐ ہيں، ان ميں اہلِ بيت بھي ہيں اور غير اہلِ بيت بھي ہيں۔ اس بات کو بھي نہيں بھلانا چاہئے ايسے اہلِ بيت بھي ہيں جن کا خانداني لحاظ سے کوئي تعلق ہي نہيں تھا، کوئي رشتہ نہيں تھا ليکن روحاني اہلِ بيت تھے۔ ان کو چھوڑ کر اہلِ بيت سے محبّت نہيں کرني بلکہ ان کو شامل کرکے اہلِ بيت سے محبّت کرني ہے۔ حضرت ابوبکر صديق، حضرت عمر فاروق  حضرت عثمان اور خود حضرت علي آپؐ کي صلبي اولاد ميں سے تو نہيں ہيں۔ ان ميں سے ايک بھي نہيں۔ ليکن روحاني طور پر اہلِ بيت اور بہت اعليٰ مقام کے اہلِ بيت۔ اسي طرح حضرت سلمان فارسي ہيں ان کو حضوراکرم ؐنے مخاطب کرکے فرمايا

سَلْمَانُ مِنَّا أَہْلَ الْبَيْتِ۔(کنزالعمال جلد 6 صفحہ 176)

کہ سلمان ہمارا ہے، اہلِ بيت ميں سے ہے۔ حالانکہ ان کي نسل ہي مختلف تھي۔ وہ عجمي تھے اور رسول کريمﷺ عربي تھے اور عمر کے لحاظ سے بھي غالباً وہ حضورؐ کي اولاد نہيں ہو سکتے ليکن حضور اکرمﷺ نے انہيں يہ خطاب خود عطا فرمايا ہے اور اگر آپؐ کسي کو ايک خطاب دے ديں تو دنيا ميں کوئي اسے چھين ہي نہيں سکتا اس نسبت کو بھي ملحوظ رکھ کر کثرت سے درود پڑھنے چاہئيں اور حضرت اقدس رسول اکرمﷺ کے صحابہؓ کو بھي اس درود ميں شامل کرنا چاہے بطور روحاني اہلِ بيت کے‘‘۔

حضرت خليفةالمسيح الخامس فرماتے ہيں:

’’ايک مرتبہ پہلے حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ نے بھي اس کي خاص تحريک فرمائي تھي تو مَيں بھي اس کا اعادہ کرتے ہوئے ياددہاني کرواتا ہوں کہ اس مہينے ميں درود بہت پڑھيں۔ يہ جذبات کا سب سے بہترين اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہوسکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعاليٰ کي مدد چاہنے کے لئے ہوسکتا ہے۔ آنحضرتﷺ پر بھيجا گيا يہ درود آپ کي جسماني اور روحاني اولاد کي تسکين کا باعث بھي بنتا ہے۔ ترقيات کے نظارے بھي ہميں نظر آتے ہيں۔ آنحضرتﷺ کے پياروں سے پيار کا بھي يہ ايک بہترين اظہار ہے۔… اللہ تعاليٰ ہميں ان دنوں ميں خاص طور پر درود پڑھنے کي، زيادہ سے زيادہ درود پڑھنے کي توفيق عطا فرمائے۔ اور پھر يہ درود جو ہے ہماري ذات کے لئے بھي برکتوں کا موجب بننے والا ہو۔… اللہ تعاليٰ ہميں آنحضرتﷺ اور آپ کي آل کي محبّت کي ہميشہ توفيق عطا فرماتا رہے۔ ہميشہ درود بھيجنے کي توفيق عطا فرماتا رہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍دسمبر2010)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق