اس مضمون کی گزشتہ قسط(مطبوعہ اخبار احمدیہ جون 2023ء ) میں زکوٰة  کا تفصیلی تعارف ہوچکا ہے، اس قسط میں فطرانہ، حصہ آمد، حصہ جائیداد، چندہ عام، چندہ جلسہ سالانہ، چندہ شرط اوّل اور چندہ اعلان وصیت کا مختصر تعارف کروایا جائے گا۔

فطرانہ

فطرانہ کے لئے حدیث رسولؐ میں فرمائے گئے صدقةالفطر اور زکوة الفطر کے الفاظ آئے ہیں۔ اوراس سے مراد وہ مالی قربانی ہے جسے آںحضورﷺ نے عیدالفطر کی خوشی میں ہر چھوٹے بڑےمسلمان مرد عورت حتی کہ نوزائیدہ بچہ پربھی فرض قرار دیا ہے اور اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے لازمی قرار دی ہے۔ اس کا مقصد معاشرہ کے غرباء اور مساکین اور دیگرمستحقین کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہے۔

فطرانہ کی شرح ایک صاع یعنی قریباً اڑھائی کلو غلہ یا اس کی قیمت ہے، اگر کوئی پوری شرح سے فطرانہ کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھاتا ہو تو نصف شرح سے بھی ادائیگی کر سکتا ہے۔ (صحیح بخاری۔ كِتَاب الزَّكَاة۔ بَابُ فَرْضِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ)

اس اصولی شرح کے مطابق اپنے اپنے علاقے اور حالات کے مطابق ہر سال فطرانہ کی شرح مقامی سکہ میں مقرر کی جاتی ہے۔ امسال جرمنی میں یہ شرح 6 یورو فی کس تھی۔

چندہ عام

چندہ عام وہ لازمی اور بنیادی چندہ ہے جسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان الفاظ میں مقرر فرمایا تھا:

’’سو اے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو! مَیں یہ پیغام آپ لوگو ں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خداتعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہیئے اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظرِ عزّت دیکھ کر بہت جلد حقِ خدمت ادا کرنا چاہیئے۔ جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دَین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصةً لِلّٰہ نذرمقرر کے اُس کے ادا میں تخلّف یا سہل انگاری کو رَوا نہ رکھے۔ اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے لیکن یاد رہے کہ اصل مدّعا جس پر اس سلسلہ کے بِلا انقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ سچّے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرالیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں۔ ہاں جس کو اللہ جلّشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ہمّت اور اندازہ مقدرت کے موافق یک مشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے‘‘۔ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34)

’’ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے اُس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے۔ جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوار ادا کرے‘‘۔(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 83)

’’اب چاہئے کہ ہر ایک شخص سوچ سمجھ کر اس قدر ماہواری چندہ کا اقرار کرے جس کو وہ دے سکتا ہے۔ گو ایک پیسہ ماہواری ہو۔ مگر خدا کے ساتھ فضول گوئی اور دروغ گوئی کا برتاؤ نہ کرے۔ ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کو چاہئے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری مقرر کر دے۔ خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ اور جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہےوہ منافق ہے، اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں رہ نہیں سکے گا۔ اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گاکہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے۔ اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا۔ اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کرکے تین ماہ تک چندہ کے بھیجنے سے لاپروائی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا۔ اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لاپروا جو انصار میں داخل نہیں اس سلسلہ میں ہرگز نہیں رہے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 468-469)

حضورعلیہ السلام کے ان ارشادات کی روشنی میں چندہ عام ہر کمانے والے احمدی کےلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ابتداء میں جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباسات میں بیان ہوا ہے، اس کی کوئی شرح مقرر نہ تھی تاہم حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت کے ابتدائی سالوں میں اس کے لئے آنہ روپیہ یعنی1/16 کی شرح مقرر فرمائی۔ تب سے جماعت میں یہی شرح چلتی چلی آ رہی ہے۔

ایسے احمدی احباب جو اپنی کسی کمزوری یا مجبوری کی بناء پر پوری شرح سے اس چندہ کی ادائیگی ممکن نہ پاتے ہوں، وہ اپنے حالات اور اپنی پوری آمد تحریر کرکے حضرت خلیفةالمسیح رضی اللہ عنہ  سے رعایت شرح لے سکتے ہیں۔ بجٹ میں رعایت شرح والے احباب کی پوری آمد درج کی جائے اور کیفیت کے خانہ میں رعایت شرح کا حوالہ دیا جائے۔ رعایت شرح ایک سال کے لیے ہوتی ہے۔ ہر سال رعایت شرح کے لیے الگ درخواست دینی ضروری ہے۔

چندہ حصہ جائیداد

موصیان اپنی جائیداد کی قیمت کی تشخیص کے بعد اس پر جو چندہ حسب شرح وصیت ادا کرتے ہیں اسے چندہ حصہ جائیداد کہتے ہیں۔ اس کی تاریخ اس طرح سے ہے کہ 20 دسمبر 1905ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے رسالہ الوصیت تصنیف فرمایا جس میں نظام وصیت کے قیام و اجراء کا اعلان تھا۔ اس کی شرائط میں یہ امر شامل تھا:

“تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا‘‘۔ (رسالہ الوصیت صفحہ 18طبع اوّل)

چنانچہ نظام وصیت میں شامل ہونے والے ہر اُس فرد جماعت کے لئے یہ چندہ ادا کرنا لازمی قرار پایا جس کی کوئی جائیداد ہو۔

حصہ آمد

نظام وصیت کے انتظام و انصرام کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک مجلس معتمدین مقرر فرمائی جس کا پہلا اجلاس مؤرخہ 29 جنوری 1906ء کو منعقد ہوا۔ اس میں بہت سے امور کے ساتھ یہ بھی فیصلہ ہوا:

’’جو احباب کوئی جائیداد نہیں رکھتےمگر آمدنی کی کوئی سبیل رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی کا کم از کم1/10 حصّہ ماہوار انجمن کے سپرد کریں‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 332)

اس اجلاس کی رپورٹ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپؑ نے اس کی توثیق فرماتے ہوئے اس پر دستخط فرمائے اور اس طرح سے یہ چندہ ایک قاعدہ کی شکل اختیار کر گیا۔ چنانچہ حضورؑ کی وفات کے بعد خلافت اولیٰ اور ثانیہ کے اوائل تک یہی طریق رہا کہ وصیت کرنے کی صورت میں حصّہ آمد (یعنی آمد کا دسواں حصہ) وصیت کرنے والے صرف ایسے افراد پر واجب الادا ہوتا جن کی کوئی جائیداد نہ ہوتی۔ پھر 1935ء کی مجلس شوریٰ میں ایک تجویز آئی کہ وصیت کرنے والے ہر فرد جماعت کو اپنی آمد پر بھی چندہ ادا کرنا چاہئے۔ اس تجویز کو سب کمیٹی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں ڈھال کر مجلس شوریٰ میں پیش کیا:

’’جو شخص وصیت کرے اسے اپنی ہر قسم کی آمد کی بھی وصیت کرنی چاہئے۔ اور یہ قاعدہ پہلی وصیتوں پر بھی حاوی ہوگا۔ مگر اس قاعدہ کی رو سے پہلے کی وصیتوں پر گزشتہ بقایا کا مطالبہ قائم نہ ہوگا کیونکہ اس کا ادا کرنے مشکل ہوگا‘‘۔(خطابات شوریٰ جلد اوّل صفحہ 636 مجلس مشاورت 1935ء)

سب کمیٹی کی طرف سے یہ تجویز پیش کئے جانے کے بعد طویل بحث ہوئی اور اس کے بعد کثرت رائے کے حق میں حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیتے ہوئے اسے منظور فرمایا۔ اس طرح سے جماعت میں چندہ حصہ آمد لازمی چندہ کے طور پر نافذ ہوگیا۔

اگرچہ چندہ حصّہ آمد کی کم از کم شرح 1/10ہے تاہم اسے1/3 تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس چندہ کی ادائیگی موصی اپنی آمد کے مطابق ماہانہ کرے گا۔ لیکن جن موصیان کی آمد ماہانہ کی بجائے سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ ہو وہ آمد ہونے پر اپنی وعدہ کردہ شرح کے مطابق چندہ ادا کریں۔ جس موصی پر وصیت کا چندہ واجب ہوجائے اور وہ چھ ماہ تک ادائیگی نہ کرے تو مجلس کارپرداز اس کی وصیت منسوخ کر سکتی ہے۔ البتہ بحالت مجبوری وکالت مال ثانی کے توسط سے مجلس کار پرداز سے مہلت کی درخواست کی جاسکتی ہے۔

چندہ حصہ آمد (وصیت) کی معافی نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت میں کہ موصی شرح کے مطابق وصیت ادا نہ کرسکے، اسے بامر مجبوری وصیت منسوخ کروالینی چاہیے اور چندہ عام ادا کرنا چاہیے۔

چندہ جلسہ سالانہ

سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جلسہ سالانہ کا اجراء فرمایا تو ابتداءً اس کے انتظامات حضورؑ کے گھر سے ہی ہوتے رہے۔ پھر یہ سلسلہ ترقی پذیر ہوا تو آپؑ نے اس کے لئے چندہ کی تحریک بھی فرمائی۔ حضورؑ کے زمانے میں اس کی کوئی باقاعدہ صورت نہ تھی تاہم بعد میں اس کی شرح ماہوار آمد پر 15 فیصد بھی مقرر ہوئی۔ 1938ء کی مجلس مشاورت میں اس چندہ کو لازمی چندہ کے طور پر مقرر کئے جانے کی تجویز پیش ہوئی تو حضور خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس پر مندرجہ ذیل ارشاد فرمایا:

’’میرا خیال ہے آج تک اس امر کو واضح نہیں کیا گیا کہ ہر سال بقایا رہ جاتا ہے۔ اور جلسہ کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ اگر یہ طے کر لیا جاتا کہ چندہ عام سے ہی جلسہ سالانہ کے اخراجات پورے کرلیے جائیں گے تو اس صورت میں بےشک چندہ جلسہ سالانہ کی تحریک کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا اور کہا جاتا کہ اس کی ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ مگر جہاں تک مجھے علم ہے چندہ جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ سے ہی شروع ہے۔ بعض دوستوں نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ یہ چندہ عام کا ہی ایک حصہ ہے جسے الگ کر دیا گیا ہے حالانکہ مجھے ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں جب چندہ جلسہ سالانہ کے لیے الگ تحریک نہ کی گئی ہو۔ تو یہ چندہ نہایت ہی پرانے چندوں میں سے ہے۔…

پس جہاں مَیں سب کمیٹی کی یہ تجویز منظور کرتا ہوں کہ آئندہ چندہ جلسہ سالانہ لازمی ہوگا وہاں بجائے پندرہ فیصد ی کے مَیں دس فیصدی مقرر کرتا ہوں۔… مگر دس فیصدی کایہ مطلب نہیں کہ جو پندرہ فیصدی دے سکتا ہے وہ بھی نہ دے۔ جو شخص پندرہ فیصدی چندہ دیتا ہے اس کا خدا کے پاس اجر ہے اور ہم اس کے اجر کے رستہ میں روک نہیں بن سکتے۔ پس اس شرح میں اگر کوئی شخص خوشی سے زیادتی کرنا چاہے تو وہ ہر وقت کرسکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو دس فیصدی چندہ نہیں دیتے انہیں ہم مجبور کریں گے کہ وہ دس فیصدی چندہ ضرور دیں‘‘۔(رپورٹ مجلس مشاورت 1938ء)

مجلس مشاورت 1943ء کے موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جلسہ سالانہ کو ایک مستقل کام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کے حکم سے یہ سلسلہ جاری کیا گیا ہے پس اگر چندہ جلسہ سالانہ کو الگ رکھا جائے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس زور دینے کی وجہ سے کہ ہمارا جلسہ سالانہ دوسرے لوگوں کے جلسوں کی طرح نہیں۔ مومنوں کا اس چندہ میں حصہ لینا ان کے ایمانوں کو ہمیشہ تازہ کرنے کا موجب بنتا رہے گا‘‘۔

حصہ آمد یا چندہ عام ادا کرنے والے احباب اپنی سالانہ آمد کا 1/20 ایک سو بیسواں حصہ یا ایک ماہ کی آمد کا دسواں حصہ سال میں ایک دفعہ چندہ جلسہ سالانہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی دوست نے چندہ عام میں رعایت شرح حاصل کی ہو تو چندہ جلسہ سالانہ میں بھی اسی تناسب سے رعایت متصور ہوگی اس کیلئے الگ درخواست دینے کی ضرورت نہ ہوگی۔

چندہ شرط اوّل

یہ چندہ شرائط وصیت کی پہلی شرط پر ہے اس لیے اسے چندہ شرط اوّل کہتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لیے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض انہیں لوگوں سے طلب کیا گیا ہے نہ دوسروں سے لیکن اگر خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اس صورت میں ایک انجمن چاہیئے۔ کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً وقتاً جمع ہوتا رہے گا اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں‘‘۔ (رسالہ الوصیت – روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318)

چندہ اعلان وصیت

چندہ اعلان وصیت حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

ہر ایک صاحب جو شرائط رسالہ الوصیت کی پابندی کا اقرار کریں۔ ضروری ہوگا کہ وہ ایسا اقرار کم سے کم دو گواہوں کی ثبت شہادت کے ساتھ اپنے زمانہ قائمی ہوش وحواس میں انجمن کے حوالہ کریں اور تصریح سے لکھیں کہ وہ اپنی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا دسواں حصہ اشاعت اغراض سلسلہ احمدیہ کے لیے بطور وصیت یا وقف دیتے ہیں۔ اور ضروری ہوگا کہ وہ کم سے کم دو اخباروں میں اس کو شائع کر دیں‘‘۔ (رسالہ الوصیت – روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 323)

 

(اخبار احمدیہ جرمنی جون 2024ء صفحہ 18-20)

متعلقہ مضمون

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • آدھی صدی کا سفر

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ