مجتبیٰ حسین

یوں تو ہم انواع و اقسام کے’’ دردوں‘‘سے گزر چکے تھے۔ پیٹ کا درد، سر کا درد، دل کا درد، قوم کا درد، اولاد کے درد سے لے کر خواجہ میر دردؔ تک، ہم سبھی دردوں سے آشنا تھے لیکن داڑھ کا درد ہمارے لیے بالکل نیا تھا۔ اردو شاعری میں جگہ جگہ ایسے مصرعے پڑھتے آئے تھے۔

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

لیکن ہمیں ان مصرعوں کی صداقت پر کبھی یقین نہیں آیا تھا کیوں کہ ہم نے آج تک کبھی درد کو حد سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ مگر صاحب داڑھ کا درد ہی ہمیں وہ واحد درد نظر آیا جو حد سے گزر جانے کی بڑی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سیدھے جبڑے کی داڑھ میں درد ہو تو وہ صرف داڑھ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ حد سے گزر کر آپ کے گال کو آپ کے جبڑے سے کم از کم چار پانچ انچ دور کر دے گا اور جبڑے اور داڑھ کے درمیان ایک ’’غیر جانب دار علاقہ‘‘پیدا کر دے گا۔ آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے آپ کا گال آپ کے جسم سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔سڑک پر چلنے لگیں تو یوں محسوس ہوگا جیسے آپ کا گال آپ سے آگے چل رہا ہو اور آپ صرف اسے پکڑنے کے لیے بھاگے جا رہے ہوں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ گال جو آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے آپ کا نہیں کسی اور کا ہے۔ جبڑے اور گال کے درمیان یہ جو’’ہجر کی کیفیت‘‘ پیدا ہو جاتی ہے وہ بڑی کرب ناک ہوتی ہے اور یہی داڑھ کے درد کا نصب العین بھی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو داڑھ کے درد میں مزہ ہی کیا باقی رہ جائے گا۔…

آئینے میں صورت دیکھی تو پتہ چلا کہ آئینے میں ہماری جگہ ایک بھوت کھڑا ہے۔ ہم گھبرا کر فوراً دانتوں کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھاگے۔ وہ ہمیں پہلے سے جانتے تھے لیکن داڑھ کے درد کے ساتھ انہوں نے ہمیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔ ہم نے اس بات کی شکایت کی تو بولے’’بھائی صاحب! داڑھ کے درد کے بعد آدمی کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے۔ مجھے تو اپنے سارے ہی مریض ہم شکل نظر آتے ہیں۔ کس کس کو کہاں تک پہچانوں؟‘‘…

انہوں نے ہمارا منہ کھولنا چاہا تو یوں لگا جیسے منہ پر تالا لگ گیا ہو۔ بڑی مشکل سے انہوں نے ایک ایسا زاویہ بنایا کہ ہماری وہ ڈاڑھ انہیں نظر آ گئی جو ہمارے سارے وجود کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارا منہ غڑاپ سے بند کرتے ہوئے کہا ’’اس وقت تو مَیں اس داڑھ کو نہیں نکال سکتا چند روز اور اس کے ساتھ نباہ کیجیے‘‘۔ ہم نے کہا’’ڈاکٹر صاحب مجھے اس داڑھ کے ساتھ نباہ کرنے میں کوئی عذر نہیں ہے لیکن یہ جو میری گردن پر ڈیڑھ چہرہ اُبھر آیا ہے۔ کم از کم اسے تو ٹھیک کر دیجیے۔ یہ عدم توازن مجھ سے اور بالخصوص میری بیوی سے بالکل نہ دیکھا جائے گا‘‘۔

وہ بولے’’بھیا! ڈیڑھ چہرے میں توازن و تناسب پیدا کرنے کا ایک ہی علاج ہے۔ ہم نے پوچھا’’کیا؟‘‘ بولے’’کسی طرح آپ کے بائیں جبڑے والی داڑھ میں بھی درد کو داخل کرنا ہوگا۔ پھر یہ درد بھی پھیل کر آپ کے بائیں جبڑے کی حدوں کو پھلانگتا ہوا کائنات کی وسعتوں میں پھیل جائے گا اور اس کے بعد آپ کے دونوں جبڑے’جیومیٹری‘ کے اصولوں کے مطابق مساوی ہو جائیں گے ‘‘۔

ہم نے کہا’’ڈاکٹر صاحب، چاہے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو، میں چاہتا ہوں کہ آپ میری داڑھ نکال پھینکیں۔ میں یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ذلت کی موت مرنا نہیں چاہتا۔ ٹیپو سلطان نے کیا خوب کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔…

خیر صاحب ہم اسی طرح درد کی لہروں سے گزرتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گئے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس دن گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ جو بیٹا ہمیں دیکھتے ہی لپٹ جایاکرتا تھا وہ ہمیں دیکھ کر الٹے پاؤں بھاگ گیا۔ وہ بیوی جو ہمارے گھر میں قدم رکھتے ہی کوئی نہ کوئی مسئلہ ہمارے سامنے رکھ دیتی تھی، وہ ہمیں دیکھ کر چپ چاپ رسوئی گھر میں چلی گئی۔ ہم گھر کی اس بدلی بدلی فضا کو بھانپ نہ سکے۔ جب بڑی دیر تک کسی نے ہمارا حال نہ پوچھا تو ہم نے غصے سے کہا’’آخر اس گھر میں سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ ‘‘

ہمارے اس سوال کو سن کر بیوی نے کہا’’مجھے آپ سے ہمیشہ یہی شکایت رہی کہ دفتر میں اپنے عہدیدار کی ڈانٹ کو سن کر آتے ہیں اور غصہ ہم لوگوں پر نکالتے ہیں۔ میں تو آپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی سمجھ گئی تھی کہ آج آپ کا موڈ اچھا نہیں ہے۔ جبھی تو آپ گال پھلائے منہ بسورے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ اب کوئی حال پوچھے تو کیسے؟‘‘

ہم نے درد سے کراہتے ہوئے کہا ’’اری نیک بخت تجھے ہمیشہ فضول حجّت کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ میں داڑھ کے درد کی وجہ سے مرا جا رہا ہوں اور تجھے اس میں میرے عہدیدار کی ڈانٹ دکھائی دے رہی ہے ‘‘۔

ہمارے اس انکشاف کو سنتے ہی سارے افرادِ خاندان کی باچھیں کھل اٹھیں۔ بچے دوڑ کر ہم سے لپٹ گئے اور بولے’’ اگر سچ مچ آپ کی داڑھ میں درد ہے تو ہمیں اس بات کی خوشی ہے ورنہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ آج بھی دفتر سے ڈانٹ سن کر آئے ہیں اور اب تھوڑی دیر میں ہماری پٹائی ہونے والی ہے‘‘۔

(مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں، مجتبیٰ حسین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2004، صفحہ 78 تا 83)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 43)

متعلقہ مضمون

  • ایک شہر پانچ ہنگامے

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • رسالہ ’’ساقی‘‘کا پہلا اداریہ