بہت پرانا واقعہ ہے کہ دو آدمیوں نے کسی مقصد کے لئے قربانی پیش کی۔ ان میں سے ایک کی قبول ہوگئی اور دوسرے کی رَدّ کر دی گئی۔ جس کی رَدّ ہوئی اسے شدید غصہ آیا، اس قدر کہ اپنے بھائی سے کہنے لگا کہ مَیں تجھے مار ڈالوں گا۔ دوسرے شخص نے اپنی مقبول قربانی کے ذکر کئے بغیر کہا اِنَّمَا یتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ۔ یہ کہنے کے بعد اسے جامِ شہادت تو نوش کرنا پڑا مگر اس کا یہ جملہ ساری انسانیت کے لئے ایک مشعلِ راہ بن گیا جسے اللہ تعالیٰ نےقرآنِ کریم میں بھی ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا، اس طرح سے تمام نوع انسانی کے لئے یہ رہنما اصول وضع کر دیا گیا کہ قربانیاں اور خدمات اگر تقویٰ کے رنگ میں رنگین ہو کر پیش کی جائیں گی تبھی قبول ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ہمیں یہ مضمون بہت سے مقامات پر سمجھایا ہے، سورہ لیل میں اس طرح واضح فرمایا کہ “فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَاتَّقٰی’’ یعنی پس جس نے (خدا کی راہ میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ گویا قربانی جان کی ہو یا مال کی جب تک تقویٰ کے ساتھ نہ ہو، مقبول نہیں ہوتی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کوئی تقویٰ کے ساتھ قربانی پیش کر رہا ہے یا اس کے بغیر تو اس کا علم اس کے نتائج سے ہوگا۔ اگر کسی کی کوئی خدمت یا قربانی مثبت رنگ میں نتیجہ خیز ہو رہی ہو تو سمجھ لیں کہ اس نے تقویٰ کے راہوں پر قدم مارتے ہوئے اس خدمت کی توفیق پائی ہے۔ ایسی قربانیاں اور خدمات غیر معمولی عزت و توقیر کا باعث بنتی ہیں، ان کے بدلہ میں غیب سے لا متناہی انعامات کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:
’’جس کسی کو دین کی خدمت کرنے کا کوئی موقع ملے، اس کو اس پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کی خدمت کے متعلق تو ابھی یہ سوال دَرپیش ہوتا ہے کہ خدا کے حضور وہ قبول ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دین کی کوئی خدمت کرکے یہ خیال کیا کہ ہم بھی کچھ کر رہے ہیں اور کچھ کر سکتے ہیں، وہ تباہی کے گڑھے کے کنارے نہیں بلکہ گڑھے میں گرگئے اور ہمیشہ کی تباہی میں مبتلا ہوگئے‘‘۔ (خطبات محمود جلد صفحہ 58)
’’محض قربانیاں کرنا کوئی فخر اور عزت کی بات نہیں، ہاں خداتعالیٰ کا کسی قربانی کو قبول کر لینا فخر اور عزت ہے۔ اگر ایک شخص بہت بڑی قربانیاں کرتا ہے مگر خداتعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتیں تو اس کے لئے کوئی فخر نہیں۔ لیکن اگرکوئی شخص ایک پیسہ کی قربانی کرتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتی ہے تو یہی اس کے فخر کا باعث ہے‘‘۔(خطبات محمود جلد صفحہ 58)
’’پس صرف قربانی پر فخر کرنا ایک مرض ہے، ایک زہریلا کیڑا ہے، ایک قسم کا دِقّ ہے جس سے بہت ممکن ہے کہ انسان ہلاک ہوجائے اور جب تک کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ محض خدا کے فضل سے کیا ہے اور وہ قربانی نہیں بلکہ خدا کا فضل ہی ہے، اس وقت تک اس کو عزت نہیں مل سکتی بلکہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد صفحہ 59)
خدا کرے کہ ہم سب اس عید قربان کے موقع پر یہ مضمون سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کے لئے راہیں متعین کرنے والے ہوں، آمین۔