نزول قرآن کے وقت کائنات کی ساخت اور اجرام فلکی کے متحرک یا جامد ہونے کے متعلق انسانی تصوّر بہت مبہم اور قدیم تھا۔ مگر اب یہ حالت نہیں۔ اب کائنات کے متعلق ہمارا علم کافی ترقی کر چکا ہے اور وسیع ہو چکا ہے۔ تخلیق کائنات کے متعلق بعض نظریات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اب وہ مسلّمہ حقائق کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جبکہ کچھ اور نظریات پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ یہ نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اب سائنسی حلقوں میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ سب سے پہلے ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے 1920ء کی دہائی میں یہ انکشاف کیا تھا۔ مگر اس سے بھی تیرہ سو سال قبل قرآن کریم درج ذیل آیت میں اس کا ذکر واضح طور پر فرما چکا تھا۔ وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ۔ (الذٰریٰت:48)
ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسی کائنات کا تصوّر جو مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہو صرف قرآن کریم میں ہی مذکور ہے۔ کسی اور آسمانی صحیفہ میں اس کا دُور کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ دریافت کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے انہیں کائنات کی تخلیق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نیز یہ دریافت تخلیق کائنات کی مرحلہ وار اس طرح وضاحت کرتی ہے جو بگ بینگ (Big Bang) کے نظریہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ قرآنِ کریم اس سے بھی آگے بڑھ کر کائنات کے آغاز، انجام اور پھر ایک اور آغاز کے مکمل دور کو بیان کرتا ہے۔ قرآنِ کریم کائنات کی پیدائش کے پہلے کا جو نقشہ پیش کرتا ہے، وہ ہو بہو بگ بینگ کے نظریہ کے مطابق ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم کے الفاظ یہ ہیں:
اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَاؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ (الانبیاء:31)
ترجمہ: کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے۔ پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟
یہاں معنی خیز بات یہ ہے کہ اس آیت میں بالخصوص غیرمسلموں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ مذکورہ بالا راز سے پردہ غیر مسلموں نے اٹھانا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہ امر قرآنِ کریم کی صداقت کا ایک زندہ نشان بن کر ان کے سامنے آ جائے۔
اس آیت کے دو الفاظ یعنی ’’رتْقًا‘‘ (بند کیا گیا ہیولہ) اور ’’فَتَقْنَا‘‘ (ہم نے اسے پھاڑ کر الگ کر دیا)میں بنیادی پیغام پوشیدہ ہے۔ مستند عربی لغات میں ’’رَتْقًا‘‘ کے دو مطالب بیان کئے گئے ہیں اور دونوں ہی اس موضوع سے متعلق ہیں[1]۔ ایک معنی یکجان ہو جانے کے ہیں اور دوسرے معنی کامل تاریکی کے ہیں۔ یہاں یہ دو نوں ہی مراد ہو سکتے ہیں اور دونوں کو ملا کر بعینہٖ ایک بلیک ہول کا نقشہ اُبھرتا ہے۔
بلیک ہول اس وسیع و عریض مادہ کی منفی شکل ہے جو اپنی ہی کشش ثقل کے دباؤ کے زیر اثر سکڑ کر اپنا مادی وجود کھو بیٹھتا ہے۔ سورج سے تقریباً پندرہ گنا بڑے ستارے جب اپنا دورِ حیات ختم کر چکتے ہیں تو ان سے بلیک ہول کے بننے کا آغاز ہوتا ہے۔ ان ستاروں کی کشش ثقل ان کے وجود کو سکیڑ کر چھوٹی سی جگہ پر سمیٹ لیتی ہے۔ اس کشش ثقل کی شدّت کی وجہ سے مادہ مزید سکڑ کر سپرنووا (Supernova) کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ اس مرحلہ پر مادہ کے بنیادی ذرات مثلاً مالیکیول، ایٹم وغیرہ پس کر ایک عجیب قسم کی توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ زمان و مکان کے اس لمحہ کو ایونٹ ہورائزن (Event Horizon) یا واقعاتی اُفق کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی اندرونی کشش ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں جا سکتی اور واپس جذب ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں مکمل تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ ان حقائق سے ذہن خود بخود قرآنِ کریم میں مذکور لفظ ’’رَتْقًا‘‘کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جس کا مطلب مکمل تاریکی ہے اور اس کو اصطلاحاً Singularity کہا جاتا ہے جو Event Horizon یا واقعاتی افق سے بھی آگے کہیں دور واقع ہوتی ہے۔
بلیک ہول ایک بار معرض وجود میں آ جائے تو یہ بڑی تیزی سے پھیلنے لگتا ہے۔ کیونکہ دور دراز کے ستارے اس کی بڑھتی ہوئی کشش ثقل کی وجہ سے اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ایک بلیک ہول میں موجود مادہ کی مقدار سورج میں موجود مادہ کی مقدار سے دس کروڑ گنا ہو جاتی ہے۔ اس کی کشش ثقل کا میدان وسیع ہوتے ہی خلا سے مزید مادہ اس کی طرف اتنی تیز رفتاری سے کھنچتا چلا جاتا ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ 1997ء میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہماری کہکشاں میں ایک بلیک ہول میں موجود مادہ کی مقدار سورج میں موجود مادہ کی مقدار سے دو لاکھ گنا زیادہ ہے۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق بہت سے بلیک ہول ایسے بھی ہیں جن میں سورج سے تین ارب گنا زیادہ مقدار میں مادہ موجود ہے[2]۔ ان کی کشش ثقل اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ بڑے بڑے ستارے بھی اپنا راستہ چھوڑ کر ان کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ اور بلیک ہول میں غائب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ‘رتقاً’ کا عمل مکمل ہوکر Singularity یا اس واحد ہیولہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جو مکمل طور پر بند بھی ہے اور تاریک بھی۔ رہا اس سوال کا جواب کہ یہ کائنات کس طرح پیدا ہوئی تھی۔ تو اس کے متعلق دو تازہ ترین نظریات بگ بینگ کے نظریہ کی ہی تائید کرتے ہیں۔ ان نظریات کے مطابق یہ کائنات ایک ایسی Singularity یا وحدت سے جاری ہوئی جس میں مقیّد مادہ اچانک ایک زبردست دھماکہ سے پھٹ کر بکھرنا شروع ہو گیا اور اس طریق پر Event Horizon یا واقعاتی افق کے ذریعہ ایک نئی کائنات کا آغاز ہوا۔ جس مرحلہ پر بلیک ہول کی حد سے روشنی پھوٹنا شروع ہوئی اسے وائٹ ہول (White Hole)کہا جاتا ہے[3],4۔ ان دونوں میں سے ایک نظریہ کے مطابق یہ کائنات ہمیشہ پھیلتی چلی جائے گی جبکہ دوسرے نظریہ کے مطابق ایک مرحلہ پر پہنچ کر کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا اور کشش ثقل اسے اندر کی طرف کھینچنا شروع کر دے گی۔ آخرکار تمام مادہ واپس کھینچ لیا جائے گا اور غالباً ایک اور عظیم الشان ’’بلیک ہول‘‘ جنم لے گا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم مؤخرالذکر نظریہ کی تائید کرتا ہے۔
کائنات کی تخلیق اوّل کے ضمن میں قرآنِ کریم بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ اس کائنات کا خاتمہ ایک اور بلیک ہول کی صورت میں ہوگا۔ اس طرح کائنات کی ابتدا اور اس کا اختتام ایک ہی طرز پر ہوگا اور یوں کائنات کا دائرہ مکمل ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآنِ کریم اعلان کرتاہے۔ یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ۔ (الانبیاء:105)
ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ نیز ایک وقت یہ عالم بہی کھاتوں کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ سائنسدان بلیک ہول کا جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ اسی آیت کے بیان کردہ نقشہ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔
جوں جوں خلا سے مادہ بلیک ہول میں گرتا ہے توں توں کشش ثقل اور الیکٹرومگنیٹک (Electromagnetic) قوت کی شدّت کی وجہ سے دباؤ کے تحت ایک چادر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ بلیک ہول کا مرکز اپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے اس لئے یہ تمام مادہ کوئی نامعلوم صورت اختیار کرنے سے پہلے اس کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔
اسی آیت کریمہ میں آگے چل کر بیان کیا گیا ہے:
کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ۔ (الانبیاء:105)
ترجمہ: جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیاتھا اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقیناً ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔
اس آیت میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ جب کائنات ایک بلیک ہول میں گم ہو جائے گی تو اس کے بعد ایک نیا آغاز ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کائنات کی از سرنَو تخلیق کرے گا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا۔ بلیک ہول میں گم کائنات ایک بار پھر اندھیرے سے باہر آ جائے گی۔ اور تخلیق کا یہ عمل ایک بار پھر شروع ہو جائے گا۔ قرآنِ کریم کے مطابق کائنات کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ایک جاری عمل ہے۔
تخلیق کے آغاز اور اس کے انجام سے متعلق قرآنی نظریہ بلاشبہ غیر معمولی شان کا حامل ہے۔ اگر عصر حاضر کے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کو یہ باتیں الہاماً بتائی جاتیں تو یہ بھی کچھ کم تعجب کی بات نہ ہوتی۔ لیکن یہ دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ تخلیق کے ہمیشہ دہرائے جانے سے متعلق یہ اتنے ترقی یافتہ نظریات آج سے چودہ سو سال قبل صحرائے عرب کے امّیﷺ پر بذریعہ وحی منکشف فرمائے گئے تھے۔
(الہام، عقل، علم اور سچائی از حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ صفحہ261 تا 265)
[1]– Lane, E.w. (1984) Arabic-English Lexicon. Islamic Text Society, William & Norgate, Cambridge.
[2]– Space Telescope Science Institute. (1997) Press release no. STScI-PR97-01,Baltimore, Maryland, USA
[3],4- RONAN, C.A. (199l)TheNaturalHistoryofthe Universe. Transworld Publishers Ltd., London.
Reader’s Digest Universal Dictionary. (1987) The Reader’s Digest Association Limited. London.
(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 11)