پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اُداس ہے | طائر کے بعد اُس کانشیمن اُداس ہے |
اک باغباں کی یاد میں سرو و سمن اُداس | اہلِ چمن فسردہ ہیں گلشن اُداس ہے |
نرگس کی آنکھ نم ہے تو لالے کا داغ اُداس | غنچے کا دل حزیں ہے تو سوسن اُداس ہے |
ہر موج خونِ گل کا گریباں ہے چاک چاک | ہر گل بدن کا پیرہنِ تن اُداس ہے |
آزردہ گل بہت ہیں کہ کانٹے ہیں شاد کام | برقِ تپاں نہال، کہ خرمن اُداس ہے |
سینے پہ غم کا طور لئے پھر رہا ہے کیا | موسیٰ پلٹ کہ وادیٔ ایمن اُداس ہے |
بس نامہ بر، اَب اِتنا تو جی نہ دُکھاکہ آج | پہلے ہی دل کی ایک اِک دھڑکن اُداس ہے |
بَن باسیوں کی یاد میں کیا ہوں گے گھر اُداس | جتنا کہ بن کے باسیوں کا مَن اُداس ہے |
مجنوں کا دشت اُداس ہے صحن چمن اُداس | صحرا کی گود، لیلیٰ کا آنگن اُداس ہے |
چشمِ حزیں میں آ تو بسے ہو مرے حبیب | کیوں پھر بھی میری دید کا مسکن اُداس ہے |
گھبرا کے دردِ ہجر سے اے میہمانِ عشق | جس من میں آکے اترے ہو وہ من اُداس ہے |
آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی تھم نہیں رہی | آ کر ٹھہر گیا ہے جو ساون اُداس ہے |
بس یادِ دوست! اور نہ کر فرشِ دل پہ رقص | سن! کتنی تیرے پاؤں کی جھانجن اُداس ہے |
لو نغمہ ہائے درد نہاں تم بھی کچھ سنو | دیکھو نا، میرے دل کی بھی راگن اُداس ہے |
(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 31)