سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کی مقدّس سیرت کے حوالے سے کچھ بیان کرتا ہوں۔ جب ہم حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے والوں کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ صحابہ رسول اللہﷺ کے تمام عادات اور اوصافِ حمیدہ سب کے سب علی قدر مراتب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بزرگ صحابی حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی مقدّس سیرت کے چنیدہ چنیدہ واقعات پیش کرتا ہوں۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کا تعلق ایک معزز خاندان غوری سے ہے، آپ ریاست مالیرکوٹلہ کے رئیس تھے۔ آپ کے مورث اعلی شیخ صدر جہاں صاحب ایک باخدا بزرگ اور جلال آباد سروانی قوم کے پٹھان تھے۔ آپ کے والد ماجد کا نام نواب غلام محمد خان صاحب تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ یکم جنوری 1870ء کو نواب بیگم صاحبہ کے بطن سےپیدا ہوئے۔ آپ اپنی والدہ کے پہلے اور بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ بچپن سے ہی آپ میں مذہبی ذوق و شوق پیدا ہوچکا تھا۔ براہِ راست حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق کا آغاز ہونے سے قبل حضرت نواب صاحب کے خاندان کے ایک معزز فرد کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اچھے تعلقات پیدا ہو چکے تھے جو بالآخر حضور علیہ السلام کے مالیرکوٹلہ تشریف لے جانے کا موجب ہوئے اور 1884ء میں حضور علیہ السلام نے یہ سفر اس لیے فرمایا تھا کہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لیا تھا اور ان کی بیماری کی خبر پا کر دعا کے لیے بھی تشریف لے گئے تاکہ عیادت اور شکریہ کی عملی روح نمایاں ہو۔
حضرت نواب صاحب کی پرورش ابتداء سے ہی مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ ابتدائی عمر میں آپ نے اپنے استادسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ذکر سنا۔ آپ پر مذہب کا بہت اثر تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان دنوں کوئی دعویٰ نہ تھا رفتہ رفتہ حضرت اقدس علیہ السلام کا ذکر آپ تک پہنچتا رہا۔ حضرت نواب صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام سے خط و کتابت 1889ء میں شروع کی۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے 1890ء میں 20 سال کی عمر میں قادیان کا تاریخی سفر کیا۔ آپ کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سعادت ودیعت ہوئی تھی یہ سفر آپ نے تحقیق حق کی خاطر کیا کیونکہ ابھی تک آپ حلقہ بگوشِ احمدیت نہ ہوئے تھے بعدازاں بعض سوالات کا اطمینان بخش جواب پانے کےبعد آپ نے بلا تامل بیعت کا خط لکھا۔ رجسٹر بیعت میں آپ کا بیعت نمبر 210 اور تاریخ بیعت 19 نومبر 1890ء درج ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں حضرت نواب صاحب اور آپ کے خاندان کا ذکر فرمایا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نواب صاحب کو اپنے ایک مکتوب میں بار بار تحریک فرمائی کہ کچھ عرصہ حضور علیہ السلام کی صحبت میں آکر رہیں۔ حضورؑ نے ایک مکتوب کے آخر پر فرمایا: ‘‘مَیں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے 27 دسمبر 1892ء کے جلسہ میں ضرور تشریف لاویں’’۔
چنانچہ حضرت نواب صاحب اس جلسہ میں شریک ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اور شفقت اور دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نواب صاحب کے لیے تمام مشکلات آسان کر دیں اور انشراح قلب کے ساتھ قادیان ہجرت کی توفیق عطا فرمائی۔ ہجرت کے بعد آپ اپنے دو کچے کمروں میں آکر ٹھہرے جو ’’الدار‘‘ سے ملحق تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت بےپایاں کا گوناگوں رنگ میں اظہار ہوتا رہا۔ حضور علیہ السلام نے حضرت نواب صاحب کو قادیان میں مکان بنانے کی بھی کئی مرتبہ تحریک فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مکانات کو بہت برکت عطا فرمائی۔ حضرت نواب صاحب کی اہلیہ اوّل کے بطن سے دو لڑکیاں ایک امۃالسلام جو چند ماہ بعد وفات پا گئی اور دوسری بیٹی حضرت بو زینب بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب جن کی ولادت 19 مئی 1893ء میں ہوئی تھی ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں سے نوازا۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ماتحت17 فروری 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے ہوگیا یہ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 14 مارچ 1909ء کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رخصت ہو کر حضرت نواب صاحب کے گھر آئیں۔ حضرت نواب صاحب کی اہلیہ اوّل سے اکلوتی بیٹی حضرت نواب بو زینب بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لختِ جگر حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے 9 مئی 1909ء کو ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی میں یہ رشتہ طے فرمایا تھا۔ حضرت بو زینب صاحبہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس کی دادی محترمہ ہیں۔ اگرچہ نواب صاحب اور حضرت نوا ب مبارکہ بیگم صاحبہ کی عمر میں 27 سال کا فرق تھا اس کے باوجود حضرت نواب صاحب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی عقل، سمجھ، محبّت، وفا اور سیرت کے قدردان تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مقدّس باپ کی مبارک بیٹی ہیں۔ حضرت نواب صاحب چھوٹی چھوٹی بات میں بھی حضرت بیگم صاحبہ سے برکت لینے کی کوشش کرتے تھے۔
ایک مرتبہ نئے سال کا کیلنڈر آپ نے حضرت بیگم صاحبہ کو دیا کہ اس پر کچھ شعر لکھ دیجئے۔
؎حضرت بیگم صاحبہ نے کیلنڈر کے سرورق پر لکھا:

فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے

آپ فرماتی ہیں کہ یہ شعر حضرت نواب صاحب ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سرور ق پر لکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت نواب صاحب اکثر آپ سے اشعار کی فرمائش کرتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نواب صاحب کو بارہا قادیان آنے اور قادیان میں مکان بنانے کی تحریک فرما چکے تھے چنانچہ حضرت نواب صاحب نے ہجرت سے پہلے ایک دو کچے کمرے دارالمسیح سے ملحق جانب مشرق تعمیر کروائے اور چند سال بعد انہیں گرا کر ایک پختہ چوبارہ تعمیر کروایا یہ چوبارہ ’’الدار‘‘ کا ہی حصہ ہے۔ خلافت اولیٰ میں آپ نے قادیان کی اس وقت کی آبادی سے باہر ایک کھلی جگہ پر دارالسلام کوٹھی تعمیر کروائی جس میں باغ بھی لگوایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نواب صاحب کو خط بھجوایا کہ قادیان آتے ہوئے اپنا فونوگراف ساتھ لیتے آئیں تاکہ غیر ممالک میں دعوت الی اللہ کی غرض سے کچھ پیغام بھرے جائیں۔ چنانچہ حضرت نواب صاحب فونوگراف قادیان لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم آواز آرہی ہے یہ فون و گراف سے اور کچھ دیگر نظمیں اور تقریریں بھری گئیں۔ حضرت نواب صاحب کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ ان کے فونوگراف میں غیر ممالک میں دعوت الی اللہ کے لیے پیغام ریکارڈ کیا گیا۔
حضرت نواب صاحب ایک مردم شناس قدردان معاملہ فہم اور وفادار بزرگ تھے خداتعالیٰ نے آپ کو قلب سلیم اور دماغ فہیم عطا فرمایا تھا اس لیے آپ ہر مسئلہ کی تحقیق خود کرتے تھے۔ تعصب اور غصہ ہرگز نہ تھا سچ کے قبول کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتے تھے ابتدائی مذہبی تعلیم کے بعد لاہور کے Aitchison College میں داخل ہوئے جو حکومت نے رئوسائے پنجاب کے بچوں کے لیے قائم کیا تھا۔ خواتین کی اصلاح کے لیے آپ نے ایک انجمن مصلح الاخوان قائم کی اور ایک اسکول قائم کیا جس کے کل اخراجات آپ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے آپ کو تعلیم کی عام ترویج کا بہت شوق تھا مدرسہ احمدیہ کے لیے کئی مرتبہ مالی تعاون کیا اور آپ ہی کی عالی ہمتی سے قادیان میں کالج کا قیام ہوا۔
آپ کی فطرت میں سخاوت کا طبعی جوش تھا اور جماعت کے غرباء آپ کی فیاضیوں سے آسودگی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ کبھی غم زدہ اور فکرمند نہ ہوتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر خوشی اور مسرّت رہتی تھی اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور بھروسہ تھا۔ انکساری کا یہ عالم تھا کہ مسجد مبارک میں سب سے آخری صف میں جوتیوں کے قریب بیٹھ جاتے تھے۔ سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔
حضرت نواب صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے حد درجہ اخلاص اور اطاعت کا تعلق رکھتے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آخری دو ہفتے نواب صاحب کو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی عیادت و خدمت کا بہترین موقع میسر آیا۔ ڈاکٹروں نے قصبہ سے باہر کسی کھلی جگہ رہنے کا مشورہ دیا جس پرحضرت نواب صاحب نے اپنی کوٹھی دارالسلام کا ایک حصہ حضورؓ کے لیے خالی کر دیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے 27 فروری 1914ء کو یہاں نقل مکانی فرمائی اور اس جگہ کو بہت پسند فرمایا۔ دو ہفتے بعد 13 مارچ 1914ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے دارالسلام میں ہی وفات پائی۔
یکم جنوری 1903ء کو صبح کی سیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نواب صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا ’حجۃاللہ‘ اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ کیونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ’’حجۃاللہ‘‘ رکھا یعنی آپ ان پر حُجّت ہوں گے‘‘۔ آپ نے متعدد مواقع پر مالی قربانی کی مختلف تحریکات میں حصہ لیا، اعانت فرمائی اور عمارتوں کی مرمت اور توسیع کے لئے گاہ بگاہے رقم مہیا کی۔ جن میں مدرسہ احمدیہ منارۃالمسیح اور مرکزی لائبریری وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے قادیان میں بہت سے رفاہ عامہ کے کام سرانجام دئیے۔ سڑکوں کو ہموار بنوایا اور پختہ نالیاں بنوائیں نیز مریضوں کی امداد کے لیے ایک معقول رقم پیش کی۔ ان کے علاوہ سلسلہ کے پہلے اخبارالحکم کی اعانت دارالضعفاء کے لیے زمین اور الفضل کے اجراء میں اعانت بھی آپ کی مالی قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔
الفضل کے اجراء کے لیے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لیےدی۔ نیز اپنے مکان کی نچلی منزل بھی دی۔ مقبرہ کے انتظام کے لیے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی صدارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی۔ جنوری 1906 میں جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام میں عمل میں آیا، اس کے ممبران میں حضرت نواب صاحبؓ بھی تھے۔ آپ کو 1900ء سے 1918ء تک مختلف عہدوں پر سلسلہ کی خدمت کا موقع ملا۔ قیام صدر انجمن احمدیہ سے قبل 6 جنوری سے پانچ دسمبر 1902ء تک پہلے آپ میگزین ریویو کے اسسٹنٹ فنانشل سیکرٹری اور پھر فنانشل سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1909ء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے امین مقرر ہوئے۔ 1911ء میں آپ صدر انجمن کی طرف سے ناظر مقرر ہوئے۔ 1915ء اور 1916ء دو سال تک حضرت نواب صاحب صدر انجمن احمدیہ کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔
حضرت نواب صاحبؓ ادب اور حفظ مراتب کے بےحد پابند تھے اور اکثر اپنی اولاد اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔
آپ اپنے بڑے بھائیوں بزرگان صحابہ کرام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے حد درجہ احترام کا جذبہ رکھتے تھے۔ حضرت نواب صاحب صبر و استقامت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ جن حالات میں آپ نے احمدیت قبول کی اور شجاعت سے اس کا اظہار کیا یہ آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ حد درجہ کے عفت پسند اور زمانہ کے مفاسد کے باعث پردہ کے حد درجہ پابندی کے حامی تھے۔ نمازوں و روزہ کی ادائیگی، تلاوت قرآن کریم، دیگر مشاغل دینیہ میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ آپ معمولا ًشب بیدار اور تہجدگزار تھے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اس بارے میں بیان فرماتی ہیں کہ:
’’رات کو تہجد میں دعائیں کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ خدا تعالی کا نور کمرہ میں نازل ہو رہا ہے‘‘۔
حضرت نواب صاحب صبح کی نماز سے قبل قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید ایک سمندر ہے جو کوئی بھی اس بحر میں غوطہ زنی کرے گا خالی ہاتھ نہ لَوٹے گا۔ حضرت نواب صاحب معمولا ًڈائری لکھنے کا التزام نہ فرماتے لیکن جتنے عرصہ ڈائری آپ نے لکھی ہے اس سے آپ کی سیرت و شمائل کا ایک قیمتی حصہ خود آپ کے قلم سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ 10 فروری 1945ء کو بعمر 75 سال حضرت نواب صاحبؓ کا انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپؓ کے جنازہ کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نےکندھا دیا۔ بہشتی مقبرہ قادیان سے متصل باغ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کی تدفین احاطہ خاص میں ہوئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مزار مبارک ہے۔ خداتعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو اپنے قرب میں خاص مقام عطا فرمائے،آمین۔

مبارک وہ جو اَب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے اُن کو ساقی نے پِلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

متعلقہ مضمون

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • آدھی صدی کا سفر

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے

  • نُورِ ہدایت