’’میں ملتان کے قریب مظفر گڑھ میں محترم شمیم احمد صاحب اور صادقہ بیگم صاحبہ کے ہاں 1976ء میں پیدا ہوئی، گجرات کے نزدیک لالہ موسیٰ میں پرورش پائی اور ابتدائی تعلیم کے مراحل طے ہوئے“۔
سرن کی عظیم تجربہ گاہ میں سائنسی تحقیق کرنے والے تین ہزار سائنسدانوں میں شامل واحد احمدی خاتون سائنسدان محترمہ ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ نے اخبار احمدیہ جرمنی کی ٹیم کے ساتھ سرن کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے گفتگو کرتے ہوئے بہت سی حیران کن باتیں بتائیں۔ جنہیں سن کر ہم اللہ تعالیٰ کے بے پایاں افضال کے تصور میں کھو گئے کہ کس طرح لالہ موسیٰ جیسے قصبہ میں پرائمری اور مڈل کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ میں سائنسدان کے طور پر پوسٹ کیریئر بریک فیلو شپ کے تحت تحقیقی کام میں مصروف ہے۔
آپ نے اپنے خاندان کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اُن کے والد محترم نے الیکٹریکل انجنیئرنگ میں ڈپلوما کرنے کے بعد واپڈا میں ملازمت اختیار کرلی تھی جس کی وجہ سے وہ مختلف شہروں میں مقیم رہے۔ آخر پر وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے اسلام آباد سے 1999ء میں ریٹائر ہوئے اور 2008ء میں ان کی وفات ہوگئی۔ مرحوم لالہ موسیٰ میں 15 سال تک صدر جماعت اور بعدازاں گرین ٹاؤن (لاہور) کی جماعت میں امین کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ ان کی والدہ محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ نے میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پرائمری ٹیچنگ کورس کیا تھا لیکن ملازمت نہیں کی اور اپنا مکمل وقت بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف رکھا۔
آپ نے مزید بتایا کہ ہم چار بہن بھائی ہیں جو سب بفضل خدا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اِس وقت برطانیہ اور جرمنی میں مقیم ہیں۔ ایک بہن جماعت جرمنی کے دیرینہ رکن محترم چودھری شریف خالد صاحب کی بہو ہیں۔ آپ نے اپنے تعلیمی سفر کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میٹرک تک تعلیم لالہ موسی سے حاصل کی پھر لاہور کے گورنمنٹ ماڈل کالج سے ایف ایس سی اور لاہور کالج برائے خواتین سے بی ایس سی کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا اور 1998ء میں ایم ایس سی (طبیعات) کا امتحان اس امتیازی حیثیت سے پاس کرنے کی توفیق پائی کہ امتحان دینے والے ساڑھے پانچ سو طلبہ میں میری دوسری پوزیشن آئی۔ اس سے قبل 1993ء میں بھی آپ کو تین اسناد امتیاز اور انعامات مل چکے تھے۔ ایم ایس سی کے بعد 1999ء میں انہیں عبدالسلام انٹرنیشنل مرکز برائے نظریاتی طبیعات ٹریسٹ The Abdus Salam International Centre for Theoretical Physics (ICTP) کی طرف سے High Energy Physics میں ڈپلوما کرنے کے لئے ایک سال کے لئے وظیفہ مل گیا۔
ٹریسٹ سے ڈپلوما مکمل ہونے کے بعد آپ لاہور واپس چلی گئیں اور وہیں سے کنساس سٹیٹ یونیورسٹی (امریکہ) میں داخلہ ملنے پر وہاں چلی گئیں اور 2001 سے 2003ء تک اعلیٰ تعلیم کا مرحلہ طے کرتے ہوئے طبیعات میں ایک مرتبہ پھرایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی بعدازاں اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ (PhD) بھی کی۔ 2003ء سے 2005ء آپ نے شکاگو سے 40 میل مغرب میں واقع شہرۂ آفاق ”فرمی لیب“ میں تحقیقی کام کیا۔ ڈاکٹریٹ کی تکمیل مئی 2008ء میں ہوئی۔ اس کے بعد امریکہ کی ہی یونیورسٹی آف آری گان میں پوسٹ ڈاکٹرل کے طور پر ملازمت مل گئی اور سرن بھیج دیا گیا جہاں 2014ء تک تحقیقی کام میں مصروف رہیں۔
2013ء میں آپ کی شادی محترم ڈاکٹر عطاءالعلیم بھٹی صاحب کے ساتھ ہوگئی۔ موصوف نیورو سرجن ہیں اور اس وقت کرا چی میں مقیم تھے۔ 2014ء سے 2023ء تک کراچی میں مقیم رہیں، اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بچوں سے نوازا، الحمدللہ۔
2023ء میں محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کو سرن کی طرف سے دیے جانے والی پوسٹ کیریئر بریک فیلو شپ کے لیے منتخب کیا گیاچنانچہ ستمبر میں یہاں پہنچ کر دوبارہ کام شروع کیا۔ آپ نے بتایا کہ جب میں پہلی مرتبہ یہاں رہی تو میں سائنسدانوں کے اُس گروپ میں شامل تھی جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ تجربات کے دوران پیدا ہونے والے واقعات میں سے کون سے دلچسپ واقعات ریکارڈ کئے جائیں گے کہ مستقبل میں ان کا سائنسی تجزیہ کیا جاسکے۔ فیصلہ کرنے کے اس عمل کو ٹرگر Trigger کہا جاتا ہے۔ میں اس گروپ کی دو سال تک انچارج رہی۔ پھر تین سال تک Data Analysis پر کام کرتی رہی تا کہ سائنسی پیپر شائع کرسکیں۔ اس سائنسی پیپر کا مقصد کوانٹم بلیک ہولز کی تلاش تھا۔ اس کے نتائج امریکہ کے نامور تحقیقی جریدے پی آر ایل(PRL) میں شائع ہوئے۔
سوال: آپ کی زندگی میں سائنس کس طرح آئی؟
جواب: مَیں ابھی بہت چھوٹی تھی کہ میرے ابّا جان نے اردو کی ایک کتاب لاکر مجھےدی جس کا عنوان تھا “پہلا احمدی مسلمان سائنسدان، عبدالسلام” بچوں کے لئے لکھی گئی یہ کتاب مَیں نے پڑھی ضرور لیکن اس میں جو باتیں لکھی تھیں ان کی کتنی سمجھ آئی مجھے یاد نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ مجھے اسی کتاب سے سائنس پڑھنے کا شوق ہوا، میرے دل میں ایک جذبہ پیدا ہوا اور اسی کتاب کی وجہ سے غیرشعوری طور پر میں نے فزکس پڑھنے کاعزم کرلیا اور اس کے بعد اس راہ پر جو سفر شروع ہوا، وہ اب تک جاری ہے۔
توکیا آپ کبھی ڈاکٹر صاحب سے ملیں بھی؟
جواب: مَیں ابھی ایم ایس سی کر رہی تھی تو ڈاکٹر صاحب وفات پا چکے تھےاور ان کے قائم کردہ ادارہ میں تو آنا بہت بعد میں ہوا۔ تاہم ان کے قائم کردہ ادارہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا کہ وہاں مجھے پہلے ایک سال تک اورپھر تین ہفتے بھرپور انداز میں گزارنے کا موقع ملا۔ اگر پوچھا جائے تو وہ وقت جو یہاں گزرا دراصل میرے سائنسی سفر کا نقطۂ آغاز تھا۔
سوال: آپ جب سے دوبارہ اس ادارہ میں آئی ہیں تو کس شعبہ میں تحقیقی کام کر رہی ہیں؟
محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ میرا تحقیقی کام ایل ایچ سی میں اٹلس ڈی ٹیکٹر کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے پر مبنی ہے۔ اس وقت میں جس خاص شعبے پر توجہ مرکوز کر رہی ہوں اس کو ٹریگر Trigger کہا جاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ وہ مرحلہ ہے جہاں اٹلس ڈی ٹیکٹر فیصلہ کرتا ہے کہ پروٹان کے ٹکراؤ سے ہر سیکنڈ میں پیدا ہونے والے40 ملین ایونٹس میں سے ہمیں کون سے دلچسپ ایونٹس (Evensts) کو محفوظ کرلینا چاہیے۔ اس عمل میں ہارڈویئر اور سافٹ ویئر دونوں شامل ہیں۔ مَیں زیادہ تر سافٹ ویئر پر کام کر رہی ہوں۔ میں جزوی طور پر Faser Experiment پر بھی کام کر رہی ہوں تا کہ میوآنز Muons پر مشتمل ایونٹس کے پس منظر کا تجزیہ کیا جاسکے۔ فیزر ڈی ٹیکٹر، اٹلس ڈی ٹیکٹر سے تقریباً 480 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایک بار مجھے ڈی ٹیکٹر کے غار (Cavern) اور ایل ایچ سی ٹنل کے ایک حصہ میں جانے کا موقعہ ملا تھا۔ شافٹ میں 90 میٹر زمین کے اندر جانا ایک دل دہلا دینے والا غیرمعمولی تجربہ تھا۔
سوال: آپ کو پردہ کے حوالہ سے کبھی کوئی مشکل پیش آئی ہو؟
الحمدللہ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
سوال: آپ کے میاں یہاں کیا کام کرتے ہیں؟
میرے میاں پیشے کے اعتبار سے نیورو سرجن ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی سے ایف سی پی ایس (FCPS) مکمل کرنے کے بعد انہوں نے تین سال تنزانیہ میں کام کیا۔ اس کے بعد یونیورسٹی ہسپتال زیورخ (سویٹزرلینڈ) سے اینڈو واسکیولر سر جری اور برین اینجیوگرافی میں دو سال کی فیلو شپ مکمل کی۔ اس کے بعد دس سال تک کراچی میں رہے اور ساؤتھ سٹی ہسپتال کے ساتھ کام کیا۔
ڈاکٹر صاحب کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ وہ کم وسائل رکھنے والے ممالک کے لیے کام کر سکیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے جنیوا آنے کے بعد نیورو ہیلتھ کیئر فار ایل ایم آئی سی کے نام سے ایک ایسوسی ایشن بنائی ہے۔ جو باقاعدہ طور پر رجسٹر ہو چکی ہے اور اس نے کام شروع کر دیا ہے۔ مختلف ممالک کے وفود کے ساتھ میٹنگز کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس ایسوسی ایشن کا مقصد، کم وسائل رکھنے والے ممالک میں جا کر ٹیچنگ، ٹریننگ، سرجری، کلینکس اور بحالیٔ صحت (Rehabilitation) کی خدمات فراہم کرنا ہے۔
سوال: آپ کی روزمرہ مصروفیات کا خلاصہ کیا ہے؟
2008ء سے لے کر 2014ء تک میرا زیادہ تر وقت دفتر میں ہی گزرتا تھا۔ لیکن اب فیملی کے ساتھ ایسا ممکن نہیں ہے۔ دن کا آغاز بچوں کو نماز، قرآن پڑھانے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناشتہ، سکول کی تیاری اور کسی حد تک دوپہر کے کھانے کی تیاری کے بعد میں آٹھ بجے تک دفتر پہنچ جاتی ہوں۔ میرا کام Data کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کے لیے پروگرام لکھنا ہوتا ہے۔ مختلف میٹنگز میں رپورٹس دینی ہوتی ہیں۔ پانچ سے چھ بجے کے درمیان دفتر سے فارغ ہوتی ہوں۔ اس کے بعد بچوں کے لیے کھانا تیار کرنا اور سکول کے معاملات دیکھنا ہوتے ہیں۔ جنیوا جماعت کی مقامی صدر کے حوالے سے کچھ کام ہوتا ہے، وہ بھی کرتی ہوں۔
سوال: آپ کو انتہائی ذہنی کام کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جیسا کہ آپ کی باتوں سے پتہ چل رہا ہے کہ گھر کو بھی مکمل طور پر سنبھالتی ہیں، تو کیسے ممکن ہو جاتاہے؟
خداتعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ اس نے ہمت دی ہے۔ ہر وقت یہ ہی دعا کرتی ہوں کہ خدا میرے کام اور وقت میں برکت عطا فرمائے اور آسانیاں پیدا فرمائے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کا جو موقع ملا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہم سب کے لیے بابرکت بنائے، آمین۔ میرے میاں بچوں کو دن میں دیکھ لیتے ہیں اس سے بھی آسانی ہوجاتی ہے۔
سوال: حضرت امیرالمومنینسے کسی ملاقات کا بتائیں کہ اس میں حضور نے آپ کی کیا رہنمائی فرمائی؟
حضور انور سے میری پہلی ملاقات 2009ء میں ہوئی تھی۔ آپ کے دعاؤں بھرے خطوط ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ حضور انور نے شادی سے پہلے تک ہمیشہ کام کرتے رہنے کی نصیحت کی۔ لیکن شادی کے بعد جلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں جب مَیں نے حضور سے دعا کی درخواست کی کہ میں اپنی فیلڈ میں واپس آ جاؤں تو آپ نے فرمایا: ”اب گھر اور بچے ہی آپ کی فیلڈ ہیں“۔ بعدازاں2023ء میں جب بچے بڑے ہوگئے اور مَیں نے فیلوشپ ملنے کا بتایا تو حضورانور کی طرف سے دعاؤں بھرا خط موصول ہوا جس سے دل کو بہت تسلی ہوئی، الحمدللہ۔
سوال: آپ احمدی نوجوانوں طلبہ و طالبات کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا وقت بامقصد طور پر صرف ہو۔بامقصد علم کا حصول تو زندگی کا اہم پہلو ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کربامقصد علم کی تخلیق ہے۔ اور ہماری زندگیوں کا ایک اہم مقصد اس علم کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کرنا ہے جو رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہو۔
زندگی کے ہر گزرتے دن میں یہ احساس بہت ضروری ہے کہ آپ آگے بڑھ رہے ہیں۔ جمود کی کیفیت انسانی صلاحیتوں کی نشونما کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہے۔ اپنے دن کے اختتام پر اس بات کا ضرور جائزہ لیں کہ آج کے دن میں آپ نے کیا سیکھا اور پچھلے دن کی نسبت آپ کتنا آگے بڑھے۔ اور آپ کا وجود کس حد تک نافع الناس رہا۔
قارئین کرام! یہ ایک بےحد مصروف شخصیت کے شب و روز کا محض ایک خاکہ ہےجبکہ ان کی ادب کے ساتھ وابستگی ایک علیحدہ باب ہے جس کا حال ہمیں اُس وقت معلوم ہوا جب ہمارے ایک ساتھی کی زبان نے لغزش کھائی اور غالب کا ایک شعر پڑھتے ہوئے ان سے سقم رہ گیا تو محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کی طرف سے بے ساختہ اور بڑے با اعتماد انداز میں اس کی درستگی کروائی گئی۔ جسے سن کر ہم سب حیران و ششدر رہ گئے کہ ایک سائنسدان کو بھی اس حد تک شاعری سے دلچسپی ہوسکتی ہے!
(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 26)