اس کتاب کا جرمن ترجمہ کرنے کی سعادت مکرم مبارک احمد تنویر صاحب اور مکرم انتصاراحمد صاحب مربیان سلسلہ کے حصہ میں آئی جو Vier Fragen des Christen Sirajuddin und die Antworten darauf کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
22 جون 1897ء کو حضرت مسیح موعود کی کتاب ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘ کے عنوان سے زیور طبع سے آراستہ ہو کر مسلمانوں کے لیے انبساط اور اطمینان قلب کا سامان بن کر آئی جبکہ عیسائی عقائد پر بجلی بن کر گری۔
اس کتاب کی وجہ اشاعت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود اس کے آغاز میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک صاحب سراج الدین نام عیسائی نے لاہور سے چار سوال بغرض طلبِ جواب میری طرف بھیجے ہیں۔ مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ فائدۂ عام کے لیے ان کا جواب لکھ کر شائع کروں لہٰذا ہر چہار سوال حصہ جواب ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔
سوال1: عیسائی عقائد کے مطابق مسیح کا مشن اس دنیا میں بنی نوع انسان کی محبت کے لیے آنا اور نوع انسان کی خاطر اپنے تئیں قربان کردینا تھا۔ کیا بانی اسلام کا مشن ان دونوں معنوں میں ظاہر ہوسکتا ہے یا نہیں؟ یا محبت اور قربانی کے علاوہ کسی اور بہتر الفاظ میں اس مشن کو ظاہر کرسکتے ہیں؟
سوال 2: اگر اسلام کا مقصد توحید کی طرف آدمیوں کو رجوع کرنا ہے توکیا وجہ ہے کہ آغاز اسلام میں یہودیوں کے ساتھ جن کی الہامی کتابیں توحید کے سوا اور کچھ نہیں سکھاتیں۔ جہاد کیا گیا؟ یا کیوں آج کل یہودیوں یا اور توحید کے ماننے والوں کی نجات کے لیے مسلمان ہونا ضروری سمجھا جائے۔
سوال3: قرآن میں انسان اور خدا کے ساتھ محبت کرنےکے بارے میں اور خدا کی انسان کے ساتھ محبت کرنےکے بارے میں کون سی آیتیں ہیں جن میں خاص محبت یا حبّ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
سوال4: مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہے۔’’ میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندے ہو کہ میں تمہیں آرام دوں گا‘‘۔ اور یہ کہ ’’مَیں روشنی اور میں راہ ہوں۔ میں زندگی اور راستی ہوں‘‘۔ کیا بانی اسلام نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کئےہیں‘‘۔
حضور نے کفارہ کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک تو ایک کا گناہ دوسرے پر ڈالا گیا اور پھر ایک بےگناہ اور راستباز کو لعنتی ٹھہرا کر صلیب پر لٹکایا گیا اور پھر کیا اس کفارہ کی قربانی سے وہ گناہ سے باز آگئے یا اُن کے گناہ بخشے گئے۔ پھر آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر گناہ رُک نہیں سکتے تو کیا اس لعنتی قربانی سے ہمیشہ گناہ بخشے جاتے ہیں گویا یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ ایک طرف ایک بدمعاش ناحق کا خون کرکے یا چوری کرکے یا جھوٹی گواہی سے کسی کے مال یا جان یا آبرو کو نقصان پہنچا کر اور یا کسی کے مال کو غبن کے طور دبا کر اور پھر اس لعنتی قربانی پر ایمان لا کر خدا کے بندوں کے حقوق کو ہضم کر سکتا ہے اور ایسا ہی زناکاری کی ناپاک حالت میں ہمیشہ رہ کر صرف لعنتی قربانی کا اقرار کرکے خداتعالیٰ کے قہری مواخذہ سے بچ سکتا ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ ارتکاب جرائم کرکے پھر اس لعنتی قربانی کی پناہ میں جانا بدمعاشی کا طریق ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ پولوس کے دل کو بھی یہ دھڑکا شروع ہوگیا تھا۔ کہ یہ اصول صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یسوع کی قربانی پہلے گناہ کے لیے ہے اور یسوع دوبارہ مصلوب نہیں ہوسکتا۔
پس بموجب اصول پولوس کے دوسرا گناہ ان کا قابل معافی نہیں اور ہمیشہ کی جہنم اُس کی سزا ہے۔ اس صورت میں ایک بھی عیسائی دائمی جہنم سے نجات پانے والا ثابت نہیں ہوتا۔ مثلاً میاں سراج الدین دور نہ جائیں اپنے حالات ہی دیکھیں کہ پہلے انہوں نے مریم کے صاحبزادے کو خدا کا بیٹا مان کر لعنتی قربانی کا بپتسمہ اور پھر قادیان آ کر نئے سرے سے مسلمان ہوئے اور اقرار کیا کہ میں نے بپتسمہ لینے میں جلدی کی تھی اور نماز پڑھتے رہے اور بارہا میرے روبروئے اقرار کیا کہ کفارہ کی لغویت کی حقیقت بخوبی میرے پر کھل گئی ہے اور میں اس کو باطل جانتا ہوں اور پھر قادیان سے واپس جا کر پادریوں کے دام میں پھنس گئے اور عیسائیت کو اختیار کر لیا۔ اب میاں سراج الدین کو خود سوچنا چاہیے کہ جب اوّل وہ بپتسمہ پا کر عیسائی دین سے پھر گئے تھے اور قول اور فعل سے انہوں نے اس کے برخلاف کیا تو عیسائی اصول کی رُو سے یہ ایک بڑا گناہ تھا جو دوسری دفعہ اُن سے وقوع میں آیا پس پولوس کے قول کے مطابق یہ گناہ ان کا بخشا نہیں جائے گا کیونکہ اُس کے لیے دوسری صلیب کی ضرورت ہے’’۔ اس کتاب کا اختتام ان جلالی کلمات پر ہوتا ہے۔
’’قرآن خدا کا پاک کلام ہےاور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں۔ اُٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بےشک ذبح کر دو ورنہ آپ لوگ خدا کےالزام کے نیچے ہیں اور جہنم کی آگ پر آپ لوگوں کا قدم ہے‘‘۔