حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل کے مضمون’’شمائل حضرت مسیح موعودؑ‘‘ میں سے

حضور کے رنگ کے بارہ میں ایک اقتباس

رنگم چوگندم است و بمو فرق بیّن ست

زِ انساں کہ آمد است در اخبار سرورم

آپؑ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی۔ اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی۔ کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا۔ کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا۔ علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہوسکتے ہیں۔ یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا۔ اور ایمان کا نور بدکار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہوسکتا۔ آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژ مردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں۔ بعض لوگ ناواقفی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں۔ ہر طرف سے اُداسی کے آثار ظاہر ہیں۔ لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اے خداوند ہمیں رسوا مت کریو۔غرض ایسا کہرام مچ رہا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فَق ہو رہے ہیں مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سربر آوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکراتا ہوا۔ ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں۔ ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی۔ اِطَّلَعَ اللہُ عَلٰی ھَمِّہ وَغَمِّہ۔ مجھے الہام ہوا اس نے حق کی طرف رجوع کیا حق نے اس کی طرف رجوع کیا۔ کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اس نے اپنی سُنا دی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے۔ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بےفکر اور بےغم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے۔ اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دے دیا۔ اور پھر اس نے آتھم کا رجوع اور بےقراری دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دے دی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کرکے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خود ہی اسے چھوڑ دیتا ہے کہ جاؤ ہم تم پر رحم کرتے ہیں۔ ہم مَرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔

لیکھرام کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ مخبروں نے فوراً اتہام لگانے شروع کر دئیے۔ پولیس میں تلاشی کی درخواست کی گئی۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس یکایک تلاشی کے لیے آ موجود ہوئے۔ لوگ الگ کر دئیے گئے اندر کے باہر، باہر کے اندر نہیں جا سکتے۔ مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی تحریر کا مشتبہ نکلے تو پکڑ لیں مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے اور خود پولیس افسروں کو لے جا لے جا کر اپنے بستے اور کتابیں تحریریں اور خطوط اور کوٹھریاں اور مکان دکھا رہے ہیں۔ کچھ خطوط اُنہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کرلیے ہیں۔ مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ۔ گویا نہ صرف بےگناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام حجّت کا موقعہ نزیک آتا جاتا ہے۔ برخلاف اس کے باہر جولوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں کو دیکھو وہ ہر ایک کنسٹبل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کر سہمے جاتے ہیں۔ ان کا رنگ فق ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں فکر ہے خود افسروں کو بلا بلا کر اپنے بستے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیش گوئی کی پورے طور پر کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی آلائش اور سازش سے پاک ثابت ہوگا۔

غرض یہی حالت تمام مقدمات، ابتلاؤں، مصائب اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینانِ قلب کا اعلیٰ اور اکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں۔

(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیلؓ جلد اوّل صفحہ 525-527)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 28)

متعلقہ مضمون

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • چند یادیں

  • اسلام کا بطلِ جلیل