مضمون: مکرم ظہیر احمد طاہر صاحب۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی

 

سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ قرآنِ شریف کی محبّت اور عشق میں سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی تعلیم کو از سر نو پھیلانے اور اس زندگی بخش پیغام کی تاثیرات کو دنیا میں عام کرنے کے لئے ہر لمحہ مسلسل جہاد کرتے نظر آتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
خدا نے اپنی کتاب میں بہت جگہ اشارہ فرمایا ہے کہ میں اپنے ڈھونڈنے والوں کے دل نشانوں سے منور کروں گا۔ یہاں تک کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اور میں اپنی عظمت انہیں دکھلائوں گا یہاں تک کہ سب عظمتیں ان کی نگاہ میں ہیچ ہوجائیں گی… ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔ سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔ سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلماتی پردے اٹھ جاتے ہیں اور غیراللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 65)
چودہ سو کچھ سال پہلے حکیم مطلق نے ضرورتِ انسانی کے عین مطابق انسان کی روحانی صعوبتوں کے وقت اپنا شفا بخش کلام نازل فرماکر اپنے بندوں کی دستگیری فرمائی تا وہ قعر مذلت سے نکل سکیں۔ پس جو دل قرآنِ شریف کو سرمایۂ حیات بنا لیتے ہیں وہ نیکی و تقویٰ کی وادیوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے لئے سرمایۂ سعادت اکٹھا کرلیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود  فرماتے ہیں:
قرآنِ شریف وہ کتاب ہے جو عین ضرورت کے وقت آئی اور ہر ایک تاریکی کو دُور کیا اور ہر ایک فساد کی اصلاح کی اور توریت و انجیل کے غلط اور محرّف بیانات کو رَدّ کیا اور علاوہ معجزات کے توحید باری پر عقلی دلائل قائم کیں۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 270)
نیز فرمایا:
قرآنِ شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآنِ شریف کے پورے طور پر خداتعالیٰ پر یقین لاسکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طورپر قرآنِ شریف میں ہی ہے کہ اُس کی کامل پیروی سے وہ پردے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دور ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب والا محض قصّہ کے طور پر خدا کا نام لیتا ہے مگر قرآنِ شریف اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کا نور انسان کے دل میں داخل کردیتا ہے اور وہ خدا جو تمام دنیا سے پوشیدہ ہے وہ محض قرآنِ شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 272-271)
بدقسمتی سے موجودہ زمانے میں عالم اسلام میں علم پروری اور عقل دوستی کے زوال کی وجہ سے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ علم دشمنی اور جہل دوستی کی وجہ سے جو پسماندگی رونما ہوئی اُس نے اُنہیں قعر مذلت میں لا کھڑا کیااور وہ قرآن کریم کے زندگی بخش علوم سے بےبہرہ ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی عقل کا تعلق زمین سے ہے جبکہ وحی و الہام آسمان سے نازل ہوتے ہیں اوراِن دونوں کے اتصال سے کامل نور وجود پکڑتا ہے جیسا کہ زمینی آنکھ آسمانی سورج سے روشنی لے کر نورپکڑتی ہے۔ پس وحی و الہام کے بغیر نہ کامل یقین پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ نورِفراست حاصل ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس والا صفات کو پہچان سکے۔ حضور فرماتے ہیں:
جو لوگ وحی ولایت عظمٰی کی روشنی سے منور ہیں اور الا المطھرون کے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دقائقِ مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے… سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے۔
(مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 81)
وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں
ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں
پس حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ کے الہام و کلام کی روشنی میں قرآنِ شریف کے حقائق و معارف اور اس کی زندگی بخش تاثیرات کو سمجھا اور پھر اُسے خداتعالیٰ کی طرف سے ودیعت کئے گئے علم کلام کے ذریعہ ایسے منفرد اور نہایت دلنشین انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی نظیر تاریخ اسلام میں پائی نہیں جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی آپ کی تحریرات کو فراست کی آنکھ سے پڑھا اور بصیرت کی روشنی میں پرکھا وہ ان کا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حضور قرآنِ شریف کی ضرورتِ نزول کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قرآنِ شریف ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب تمام اُمّتوں نے اُصولِ حقّہ کو چھوڑ دیا تھا اور کوئی دین روئےزمین پر ایسا نہ تھا کہ جو خدا شناسی اور پاک اعتقادی اور نیک عملی پر قائم اور بحال ہوتا بلکہ سارے دین بگڑگئے تھے اور ہر یک مذہب میں طرح طرح کا فساد دخل کرگیا تھا اور خود لوگوں کے طبائع میں دنیا پرستی کی محبّت اس قدر بھر گئی تھی کہ بجز دنیا اور دنیا کے ناموں اور دنیا کے آراموں اور دنیا کی عزّتوں اور دنیا کی راحتوں اور دنیا کے مال و متاع کے اور کچھ ان کا مقصد نہیں رہا تھا اور خداتعالیٰ کی محبّت اور اس کے ذوق اور شوق سے بکُلّی بےبہرہ اور بےنصیب ہوگئے تھے اور رسوم اور عادت کو مذہب سمجھا گیا تھا پس خدا نے جس کا یہ قانون قدرت ہے کہ وہ شدّتوں اور صعوبتوں کے وقت اپنے عاجز بندوں کی خبر لیتا ہے اور جب کسی سختی سے جیسے اِمساکِ باراں وغیرہ سے اس کے بندے قریب ہلاکت کے ہوجاتے ہیں بارانِ رحمت سے اُن کی مشکل کشائی کرتا ہے نہ چاہا کہ خلق اللہ ایسی بَلا میں مبتلا رہے جس کا نتیجہ ہلاکت دائمی اور ابدی ہے سو اُس نے بہ تعمیل اپنے قانون قدیم کے کہ جو جسمانی اور روحانی طور پر ابتدا سے چلا آتا ہے قرآنِ شریف کو خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نازل کیا۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ658 660-)
حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی عظمتِ شان اور بلندیٔ مراتب کوحقیقی رنگ میں وہی جان سکتا ہے جس نے الہام کا مصفّا پانی پیا ہو اور اُس منبع سے آشنا ہو جو عرفان و ایقان کی وادیوں سے نکلتا ہے کیونکہ قرآنِ شریف بعید از قیاس استعاروں سے پاک ایسا عظیم الشان مرقع ہے جس کا ایک ایک لفظ اپنی خوبی و لطافت میں یکتا ہے۔
کلامِ پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لولوئے عمّاں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے
خدا کے قول سے قولِ بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے
حضور فرماتے ہیں:
قرآنِ شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بےنظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد 1حاشیہ نمبر11صفحہ 662)
ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لا علمی
سُخن میں اُس کے ہمتائی، کہاں مقدورِ انساں ہے
پس قرآنِ کریم کی تعلیم رہتی دنیا تک نوعِ انسان کے لئے چراغ راہ اور دائمی نمونہ عمل ہے۔ حضرت مسیح موعود کی تحریرات پڑھنے والے جانتے ہیں کہ آپ نے قرآنِ کریم کی تعلیم کو ہاتھ میں لیا اور آسمانی نشانوں سے پُر اس صحیفۂ آسمانی کی خوبیوں کو دلائلِ عقلیہ و نقلیہ کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کرکے اس کا آسمانی ہونا ثابت کیا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے۔ قرآن میں دو نہریں اب تک موجود ہیں ایک دلائلِ عقلیہ کی نہر دوسری آسمانی نشانوں کی نہر۔
(کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 93-92)
کلام پاک پر انگشت نمائی اور زبان طعن دراز کرنا روزِاوّل سے دشمنانِ اسلام کا وطیرہ رہا ہے۔ حضور کے دل میں شانِ اسلام اور عظمتِ قرآن کا جو ولولہ انگیز جذبہ موجزن تھا وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ کوئی انسان کلام پاک پر زبانِ طعن دراز کرے چنانچہ آپ نے کمال جرأت اوربغیر خوف لومۃلائم دشمنانِ اسلام کی طرف سے قرآنِ شریف پر کئے گئے تمام اعتراضات کا ایک ایک کرکے نہ صرف جواب دیا بلکہ مسکت دلائل اور اعجاز نما براہین سے غیروں کے منہ بندکرکے قرآنِ شریف کو عجائباتِ روحانیہ کا ایک حسین مرقع ثابت کیا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
قرآنِ شریف تو بجائے خود ایک عظیم الشان معجزہ ہے اور نہ صرف معجزانہ بلاغت و فصاحت رکھتا ہے بلکہ معجزات اور پیشگوئیوں سے بھرا ہوا ہے اور جن قوی دلائل سے وہ خداتعالیٰ کے وجود کا ثبوت دیتا ہے وہ ثبوت نہ توریت کی رُو سے مل سکتا ہے نہ انجیل کی رُو سے حاصل ہوسکتا ہے۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 271)
نیز فرمایا:
قرآنِ کریم صرف اپنی بلاغت و فصاحت ہی کے رُو سے بینظیر نہیں بلکہ اپنی ان تمام خوبیوں کی رُو سے بینظیر ہے جن خوبیوں کا جامع وہ خود اپنے تئیں قرار دیتا ہے اور یہی صحیح بات بھی ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو کچھ صادر ہے اُس کی صرف ایک خوبی ہی بےمثل نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہر یک خوبی بےمثل ہوگی… خداتعالیٰ کی پاک اور سچی کلام کو شناخت کرنے کی یہ ایک ضروری نشانی ہے کہ وہ اپنی جمیع صفات میں بےمثل ہو۔
(کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 60)
بنا سکتا نہیں اِک پائوں کیڑے کا بشر ہر گز
تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اُس پہ آساں ہے
ارے لوگو کرو کچھ پاس شانِ کبریائی کا
زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بُوئے ایماں ہے
جاننا چاہئے کہ ہر چیز اُسی وقت قابل توجہ سمجھی جائے گی جب وہ اپنی اس غرض کو احسن رنگ میں پورا کرے جو اُس کے وجود میں آنے کی علتِ غائی ہے۔ کسی بھی آسمانی کتاب کی اصل غرض یہ ہونی چاہئے کہ وہ اپنی پیروی کرنے والوں کو اپنی تعلیم، اپنی تاثیر، اپنی قوت اصلاح اور اپنی روحانی خاصیت سے گناہ کی زندگی سے پاک کرے اور اُنہیں اُن کے پیدا کرنے والے کی شناخت سے متعلق ایسی کامل بصیرت عطا کرے کہ اُن کا تعلق محبّت اور عشق کے دائرے میں داخل ہوجائے اور وہ گناہ آلود زندگی سے نکل کر نجات یافتہ زندگی حاصل کرلیں۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآنِ کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہوکر آیا ہے جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزار ہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آبِ حیات ہماری زندگی کے لئے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کرسکتے ہیں۔ یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔ بلاشبہ جن لوگوں کو راہِ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآنِ شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائےکریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پکڑتے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سن کر پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے اس کی ہر یک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کرلیتے ہیں اور آخر وہی ہے جو موجبِ اشراق اور روشن ضمیری کا ہوجاتا ہے اور عجیب دَر عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہریک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے۔
(ازالہ اوہام حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 382-381)
قرآنِ شریف کی یہ معجزانہ شان ہے کہ وہ سعید فطرت انسانوں کے دلوں سے ظلمت کی تاریکی دُور کرکے اُن کے اندر سکینت کے چراغ روشن کرتا ہے۔ قرآنِ کریم کی اسی خوبی و لطافت کو ایک عاشق صادق نے محسوس کیا، سمجھا اور دنیا کے سامنے کھول کھول کر بیان کیا تاکہ وہ بھی اس قیمتی خزانے سے اپنی جھولیاں بھرلیں۔ حضور فرماتے ہیں:
ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور اُن سب کا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآنِ شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اُس کے دل کو منوّر کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علومِ غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے اور ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآنِ شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اُس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے۔(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 309-308)
اے عزیزو سنو کہ بے قرآں
حق کو پاتا نہیں کبھی انساں
جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں
اُن کی اس یار پہ نظر ہی نہیں
ہے یہ فرقاں میں ایک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشقِ دلبر
حضور فرماتے ہیں:
مَیں ہر یک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآنِ شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علومِ حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رُو سے معجزہ ہے۔ موسیٰؑ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰؑ کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ۔ مَیں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسولِ کریم﷐ سے سچی محبّت رکھنا اورسچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحبِ کرامات بنا دیتا ہے اور اسی کامل انسان پر علومِ غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔
(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 345)
عشق و محبّت کا تقاضا ہے کہ انسان جس سے محبّت کرتا ہے اپنے آپ کو اس کے رنگ میں رنگین کرلے اور اپنے وجود کو مٹاکر اپنے معشوق میں گم ہوجائے۔ حضرت مسیح موعود کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپ کی اوّلین محبّت خداتعالیٰ کی ذات سے تھی اور آپ نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبّت اور اس کے عشق میں فنا کرلیا تھا۔ دوسرے نمبر پر محبّتِ رسولﷺ آپ کے جسم و جان میں خون کی طرح دوڑ رہی تھی کیونکہ اس پاک وجود کے ذریعہ آپ نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ تیسرے نمبر پر آپ کو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام قرآنِ شریف سے عشق تھاکیونکہ یہ آپ کے محبوب کا کلام ہے جس کے ذریعہ آپ نے اپنے محبوب کا چہرہ دیکھا۔ چنانچہ آپ کی تحریر و تقریراور نظم و نثر میں عشق و محبّت کے یہ تینوں رنگ بہت نمایاں ہیں۔ حضور قرآن کی روحانی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے، وہ بجز قرآنِ شریف کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا۔ کاش جو مَیں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو مَیں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصّوں کو چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں۔ وہ کامل علم کا ذریعہ جس سے خدا نظر آتا ہے۔ وہ میل اتارنے والا پانی جس سے تمام شکوک دور ہوجاتے ہیں، وہ آئینہ جس سے اس برتر ہستی کا درشن ہوجاتا ہے، خدا کا وہ مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کا مَیں ابھی ذکر کرچکا ہوں۔ جس کی روح میں سچائی کی طلب ہے وہ اٹھے اور تلاش کرے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر روحوں میں سچی تلاش پیدا ہو اوردلوں میں سچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اس راہ کی تلاش میں لگیں۔ مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اُٹھے گا۔ مَیں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جس اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے۔ اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدّت سے مہر لگا چکی ہیں۔ سو یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کرلیتا ہے۔ اور یقیناً سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا محبوب دیکھ سکیں۔ مَیں جوان تھا۔ اب بوڑھا ہوا مگر مَیں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 443-442)
پس جن دلوں میں کلام پاک کی روحانی تاثیرات داخل ہو جائیں اُن دلوں پر اللہ کے فضل کی پھوہار نازل ہوتی ہے اور وہ اللہ کے نور سے منور ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی زمانے کے امام کے پُر معارف اور زندگی بخش کلمات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ان پاکیزہ کلمات کی برکت سے ہمارے دل بھی نورِقرآن سے منور ہوجائیں،آمین۔

 

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • نُورِ ہدایت

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث