قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

اِنَّ عِدَّۃ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیمُ۔ (التوبہ:36)

ترجمہ: یقیناً اللہ کے نزدیک، جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہی ہے۔ اُن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی قائم رہنے والا اور قائم رکھنے والا دین ہے۔

ان چار حرمت والے مہینوں کی تعیین رسول اللہﷺ نے اس طرح فرمائی ہے کہ ’’سال بارہ مہینہ کا ہے۔ ان میں سے چار مہینے معزز ہیں،تین یکے بعد دیگرے، ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم جبکہ چوتھا مضر کا رَجَب جو کہ جمادی اور شعبان کے درمیان ہے‘‘۔ (بخاری،کتاب المغازی، بَابُ حَجَّۃ الوَدَاعِ۔حدیث نمبر 4406)

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے یہ دستور چلا آرہا تھا کہ لوگ دور دراز سے حج کے لیے ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم میں آنے جانے کا سفر کرتے تھے اور رَجَب جو سال کے درمیان میں ایک مہینہ ہے اس میں ایک اور موقع فراہم ہو جاتا ہے تا جو عمرہ کی غرض سے سفر کرنا چاہیں وہ آسانی سے امن کے ساتھ سفر کرسکیں۔ ان مہینوں کو حرمت والے مہینے اس لئے کہا جاتا تھاکہ ان مہینوں کے دوران سفر حج کے لئے امن قائم کیا جاتا اور حج کے احترام میں تمام عرب باہمی لڑائیوں کو موقوف کردیتے تھے۔ بعض دفعہ جب ان کے نزدیک لڑائی ناگزیر ہوتی تو وہ ان مہینوں کو بعض دوسرے مہینوں سے پھیرا لیتے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ ختم کروایا۔

چنانچہ قرآن مجید میں ہےکہ یقیناً نَسِئ کفر میں ایک اضافہ ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا گمراہ کر دیا جاتا ہے۔ کسی سال تو وہ اُسے جائز قرار دیتے ہیں اور کسی سال اُسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اس کی گنتی پوری رکھیں جسے اللہ نے حُرمت والا قرار دیا ہے، تاکہ وہ اُسے جائز بنا دیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ ان کے لئے ان کے اعمال کی برائی خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبہ:37)

تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ‘‘قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے… حضورﷺ کے فرمان میں رَجَب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رَجَب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عنداللہ بھی تھا۔ جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رَجَب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے یعنی رمضان کا نام تھا۔ پس حضورﷺ نے کھول دیا کہ حرمت والا رَجَب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے دَر پے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو، لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں، پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے۔ پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے۔ سال کے درمیان میں رَجَب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کرلیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آمد و رَفت کریں یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔ پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب دیں گے اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے’’۔ (تفسیر ابن کثیر اردو ترجمہ۔ جلد نمبر2 زیرآیت التوبہ:37)

چونکہ حج کا تعلق بھی ان مہینوں سے ہے اس لئے قرآنِ کریم اس کا ذکر درج ذیل آیت میں فرماتا ہے:’’حج چند معلوم مہىنوں مىں ہوتا ہے پس جس نے ان (مہىنوں) مىں حج کا عزم کرلىا تو حج کے دوران کسى قسم کى شہوانى بات اور بدکردارى اور جھگڑا (جائز) نہىں ہوگا اور جو نىکى بھى تم کرو اللہ اسے جان لے گا اور زادِسفر جمع کرتے رہو پس ىقىناً سب سے اچھا زادِ سفر تقوىٰ ہى ہے اور مجھ ہى سے ڈرو اے عقل والو‘‘۔ (البقرۃ:198)

حج کے وقت کا تعین قمری مہینوں سے وابستہ کیا گیا ہے، فرمایا: یسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْأَھِلَّۃ قُلْ ھِی مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وہ تجھ سے پہلی تین رات کے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج (کی تعیین) کا بھی۔ (سورۃ البقرۃ:190)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ‘‘ میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حج کے بارہ میں قرآنِ کریم نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اسی حکم کو قائم رکھا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے زمانہ میں چلا آرہا ہے۔ اس وجہ سے حج کے مہینے بھی سب لوگوں کو معلوم ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔ گو امام ابوحنیفہؓ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ذوالحجہ کے صرف دس دن اشہر الحج میں شامل ہیں۔ (بحر محیط۔ زیر آیت ھذا)

فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوۡقَ وَلَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّؕ جو شخص ان مہینوں میں حج کو اپنے اوپر فرض کرکے چل پڑے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو پاک رکھے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عشقیہ اشعار پڑھنا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایام حج میں جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ یہ روایت اگرچہ قرآنِ کریم کے اس واضح حکم کی موجودگی میں درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا تو امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کس غرض کے ماتحت جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے دوران گفتگو میں کسی دلیل کےلئے پڑھے ہوں اور سننے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہو کہ وہ شوقیہ طور پر اس قسم کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ بہرحال اس قسم کا کلام خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور ان دنوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت میں صرف کرنا چاہیے۔ مگر اس ممانعت کے یہ بھی معنے نہیں کہ رفث، فسوق اور جدال دوسرے دنوں میں جائز ہے۔ بلکہ اس ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اگر کچھ عرصہ تک انسان اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر ایسے کام چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے دوسرے دنوں میں بھی ان کو چھوڑنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ کیونکہ مشق ہونے کی وجہ سے اس کے لئے سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ بشری کمزوریوں کی وجہ سے انسان ایک لمبے وقت کے لئے کسی کام کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ ایسی حالت میں اس کے اندار استعداد پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ وقت کے لئے اس کام سے روک دیا جائے۔ جب کچھ عرصہ تک رکا رہتا ہے تو اس کی ضبط کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ وہ کلی طور پر اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری پر غالب آنے کی کوشش کرے۔ اور مہینہ بھر اس سے بچتا رہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خداتعالیٰ رمضان کے بعد بھی اس کی مدد کرے گا۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے اس بدی پر غالب آنے کی توفیق عطا فرما دے گا۔ (تفسیر کبیر جلد 3زیر آیت سورۃ البقرۃ 198)

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ صحیح بخاری کی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ: اس آیت کا مضمون واضح کرنے کے لئے یہ باب قائم کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ مہینوں میں کسی وقت حج کیا جاسکتا ہے۔حالانکہ اس کے لیے ذوالحج مہینہ کی دسویں تاریخ مقرر ہے۔ اس سے قبل یا بعد حج نہیں کیا جاسکتا۔ امام بخاریؒ نے روایت نمبر1560 پیش کرکے آیت کا مفہوم واضح کیا ہے کہ ان مہینوں میں سے کسی ایک مہینہ میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ دور دراز کے ملکوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تین مہینے مقرر کئے گئے ہیں۔ حج کی نیت کرنے اور اس کے لئے احرام باندھنے کی وجہ سے ہی شوال اور ذیقعدہ کو بھی حج کے مہینے قرار دیا گیا ہے۔ محولہ بالا آیت کے دوسرے حصے فَمَنْ فَرَضَ فِیھِنَّ الْحَجَّ نے پہلے حصہ کی تشریح کر دی ہے۔ یعنی ان تین مہینوں میں حج کی نیت کی جائے۔ جملہ کی ترکیب یوں ہوگی: مَوَاقِیتُ الْحَجِّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ یعنی بیت اللہ کا قصد کرنے کے لئے چند معین مہینے ہیں۔ امام موصوفؒ نے دونوں آیتوں کو اکٹھا کرکے آیت نمبر190 سے آیت198 کی تشریح کی ہے۔

حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ کی روایات کو حاکمؒ اور بیہقیؒ نے مذکورہ بالا الفاظ میں اور ابن جریر نے قدرے تغیر لفظی سے نقل کیا ہے جو مفہوماً ایک ہی ہیں (فتح الباری جز3 صفحہ529،530) حضرت عثمانؓ کی جس ناپسندیدگی کا عنوانِ باب میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق واقعہ یہ ہے کہ جب عبداللہ بن عامر نے خراسان فتح کیا تو انہوں نے بطور شکرانہ خراسان کے شہر نیشا پور سے ہی حج کی نیت کرکے احرام باندھ لیا تھا۔ خلیفہ وقت کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اسے ناپسند کیا۔ اسی زمانہ میں خراسان اور مکہ کے درمیان فاصلہ طے کرنے کے لئے اڑھائی تین ماہ خرچ ہوتے تھے۔ گویا حج کے مہینوں سے قبل انہوں نے احرام باندھا جو جائز نہ تھا۔ (فتح الباری جز3 صفحہ530)

امام مالکؒ کے نزدیک اگر کوئی شخص میقاتِ زمنی سے قبل احرام باندھ لے تو گو اس کا یہ فعل مکروہ ہوگا، مگر اس کا احرام باندھنا درست ہوگا۔ بعض فقہاء یہ جائز نہیں سمجھتے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اس کا یہ احرام صرف عمرہ کے لئے ہوسکتا ہے۔ حج کے لئے نہیں۔ کیونکہ عمرہ سال میں ہر وقت کیا جاسکتا ہے۔

حج کے جو آداب اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں ان کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: “یہاں رفث، فسوق اور جدال میں تین گناہوں کے چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رفث مرد عورت کے مخصوص تعلقات کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بدکلامی کرنا۔ گالیاں دینا، گندی باتیں کرنا، قصے سُنانا، لغو اور بےہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ یہ تمام امور بھی رفث میں ہی شامل ہیں۔ اور فسوق وہ گناہ ہیں جو خداتعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسان اس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جاتا ہے۔ آخر میں جدال کا ذکر کیا ہے جو تعلقات باہمی کو توڑنے والی چیز ے ان تین الفاظ کے ذریعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا ہے (1) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک میلانات سے پاک رکھو۔ (2) اللہ تعالیٰ سے اپنا مخلصانہ تعلق رکھو (3) انسانوں سے تعلقات محبّت کو استوار رکھو۔ گویا یہ صرف تین بدیاں ہی نہیں جن سے روکا گیا ہے بلکہ تین قسم کی بدیاں ہیں جن سے باہر کوئی بدی نہیں رہتی۔ کیونکہ بدی یا تو اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے یا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور یا پھر مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذاتی اصلاح کے بعد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی سرگرم رہے۔ (تفسیر کبیر جلد 3 زیر آیت سورۃ البقرۃ 198)

(اخبار احمدیہ جرمنی جون 2024ء)

متعلقہ مضمون

  • تائیوان انٹرنیشنل کتب میلہ

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • آدھی صدی کا سفر

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے