(مکرم مولانا نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن)

تیرھویں صدی ہجری کا زمانہ وہ زمانہ تھا جس میں قرآن عملاً زمین سے اُٹھ چکا تھا، ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ایسی تھی جو قرآن پڑھنا ہی نہیں جانتی تھی۔ قرآن غلافوں میں بند کرکے طاقچوں کی زینت بنا دیا گیا تھا۔ جو قرآن پڑھتے تھے ان میں سے اکثریت کا حدیث نبوی کے مطابق یہ حال تھا کہ وہ ان کے حلق سے نیچے ہی نہیں اُترتا تھا اور ان کی زندگیوں میں قرآنی تعلیم کا کوئی اظہار نہیں ہوتا تھا۔ بہت سی اعتقادی اور علمی و عملی خرابیاں مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھیں۔ اور لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ کا مضمون ان پر صادق آتا تھا۔ اس حالت زمانہ کا تقاضا تھا کہ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ میں مذکور پیشگوئی اور آنحضرتﷺکی تصریح کے مطابق وہ رجلِ فارس مبعوث ہو جو قرآن کو آسمان سے واپس لائے اور ایمان کو پھر سے دلوں میں قائم کرے۔چنانچہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود خداتعالیٰ کی طرف سے احیاءِ دینِ اسلام اور قیامِ شریعت کے لئے مبعوث ہوئے۔ آپؑ نے فرمایا: خداوندتعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارقِ غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائلِ عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حُجّت اُن پر پوری کرے۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 596حاشیہ نمبر 3) آپ مزید فرماتے ہیں: رسول اللہﷺکی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیلِ دین بھی تھی جس کے لئے فرمایا گیا تھا اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ4:) اب اس تکمیل میں دو خوبیاں تھیں۔ ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرتﷺکا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آ پؐ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے۔ یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ۔ (الحکم جلد 6نمبر 43مورخہ 30؍نومبر 1902ء صفحہ 2) یہی مضمون بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اِتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں۔ اوّل تکمیل ہدایت۔ دوم تکمیل اشاعتِ ہدایت۔ اب تم غور کرکے دیکھو تکمیلِ ہدایت تو آنحضرتﷺ کے زمانہ میں کامل طور پر ہوچکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ دوسرا ہو جبکہ آنحضرتﷺ بروزی رنگ میں ظہور فرما ویں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لِیُظْھِرَہٗ علَی الدِّینِ کُلِّہٖ (الصف:10) اس شان میں فرمایا گیاہے۔تمام مفسّرین نے بالاتفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے متعلق ہے اس لئےیہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ذریعہ لِیُظْھِرَہٗ علَی الدِّینِ کُلِّہٖ (الصف:10) کہہ کر فرمائی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جو اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ:4) کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیلِ اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمامِ نعمت کا زمانہ ہے۔ اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ (الحکم جلد 6نمبر 18مورخہ 17؍مئی 1902ء صفحہ 6-5) آپ آیت یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف159) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: آیت موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! مَیں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیا کو ان دنوں سے پہلے ہر گز تبلیغ نہیں ہو سکی اور نہ اتمامِ حجت ہوا کیونکہ وسائلِ اشاعت موجود نہیں تھے۔ اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی۔ اور نیز یہ کہ دلائل حقّانیتِ اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کرلیں۔ اور یہ دونوں اَمر اُس وقت غیرممکن تھے۔ لیکن قرآنِ شریف کا یہ فرمانا کہ وَمَنْ بَلَغَ یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اَور بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تبلیغ قرآنی اُن تک نہیں پہنچی۔ ایسا ہی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ4) اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرتﷺ کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہوگیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں جو مِنْھُمْ کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیلِ اشاعت کے لئے موزون ہے مبعوث ہوگا جو آنحضرتﷺکے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلدنمبر 17صفحہ 261-258) دَرحقیقت اظہار دین اُسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ کُل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعتِ مذہب کے ہرقسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے۔ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسّر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں، جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعودؑ کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔اسی تناظر میں حضرت مسیح موعود کی خواہش تھی کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں میں اسلام کی اشاعت کے لئے قرآنِ کریم کی ایک تفسیر بھی تیار کرکے اور انگریزی میں ترجمہ کرا کے بھیجی جائے چنانچہ فرمایا: مَیں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رَہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے۔ دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا جیسا اُس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ ہی میں داخل ہے۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 518) حضرت اقدس مسیح موعود نے خدمتِ قرآن کی جو راہیں اپنے قول اور فعل سے روشن فرمائی تھیں، آپؑ کے بعد آپؑ کے مقدّس خلفاءکرام نے ان تمام نورانی راہوں پر بڑے عزم اور استقلال کے ساتھ قدم آگے بڑھایا اور آپ کی قائم کردہ بنیادوں پر ایک عالیشان عمارت کھڑی کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفائے مسیح موعودؑ نے اپنے آقا حضرت اقدس مسیح موعود کی نمائندگی میں تمام عالم میں قرآنی تعلیمات کی حقّانیت کے اثبات اور قرآنی علوم و معارف اور حقائق و دقائق کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت اور قرآنِ مجید کی عزّت و عظمت کے اظہار اور اس کے عملی نمونوں کے قیام و استحکام کے لئے جس محنت اور جانفشانی سے اپنے جگر خون کئے اور مسیح پاک کی جاری فرمودہ عظیم مہمات کو نہایت کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھایا اس کا ذکر اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں۔ یہ حکایت بہت طویل، لذّت بھری اور حد درجہ ایمان افروز ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود کی مقدس خلافت کی آسمانی رہنمائی اور قیادت میں خداتعالیٰ کے پاک کلام قرآن مجید و فرقان حمید کے مختلف زبانوں میں تراجم اور ان کی اشاعت کے حوالہ سے قارئین کی خدمت میں مختصراً کچھ کوائف پیش کرنے سے قبل یہ بیان کرنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ خلافتِ حقّہ اسلامیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے علاوہ بھی بعض مسلمان افراد، اداروں، جماعتوں، فرقوں یا حکومتوں نے مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کئے ہیں لیکن احمدیہ مسلم جماعت وہ منفرد جماعت ہے جس نے خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ کی بابرکت قیادت اور مقدس رہنمائی میں باقاعدہ ایک منظّم پروگرام کے تحت دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں اُٹھنے والے تمام اخراجات افراد جماعت احمدیہ اپنے امام کی تحریک پر خود برداشت کرتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو خدمتِ قرآن کی اس توفیق اور سعادت کا ملنا خود قرآنِ مجید میں مذکور پیش خبریوں اور پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے اور اس کے ساتھ الٰہی نصرت و تائید اور کامیابی کے عظیم الشان وعدے ہیں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کی 134سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا وہ مبارک کام جس کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود کے مقدّس ہاتھوں سے ہوا تھا وہ الٰہی وعدوں کے مطابق آپ کے بعد ظاہر ہونے والی قدرتِ ثانیہ یعنی خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ کے ذریعہ نہایت کامیابی اور کامرانی کے ساتھ مسلسل وسعت پذیر ہے۔ اور جیساکہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں بشارت دی گئی تھی خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ افراد جماعت احمدیہ اس سلسلہ میں اپنے ا مام کے تابع تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے دامے، درمے، سخنے ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے نہایت محنت اور اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ مصروف جہاد ہیں۔ جہاں تک اردو زبان میں مختلف تراجم قرآن کا تعلق ہے تو 1902ء میں حضرت یعقوب علی عرفانیؓ نے ایک ترجمہ قرآن کیا۔ 1910ء میں حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کے قرآنِ کریم کے ترجمہ و تفسیر کے نوٹس اخبار بدر میں بالاقساط چھپتے رہے۔ 1912ء میں حضرت مولوی سرور شاہؓ صاحب نے ترجمہ مع تفسیر کیا جو 1906ء سے 1912ء تک رسالہ تعلیم الاسلام، رسالہ تفسیرالقرآن اور ریویو آف ریلیجنز کے ضمیمے کے طور پر چھپتا رہا۔ (یہ مکمل قرآن کا ترجمہ نہیں تھا)۔ 1915ء میں مکرم میر سعید احمد صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح اوّل کے دروس سے مستفاد ایک ترجمہ شائع کیا۔ 1927ء یا 1929ء میں حضرت حافظ روشن علیؓ نے بھی قرآنِ کریم کا اردو میں ترجمہ کیا۔ میاں معراج الدّین عمر صاحب نے بھی ایک ترجمہ اردو زبان میں حمائل شریف مترجم مع حواشی کے نام سے شائع کیا۔ حضرت میر محمد اسحاقؓ کا اردو ترجمہ قرآن جماعت میں بہت معروف اور متداول ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے 1957ء میں بامحاورہ اردو ترجمہ قرآن مع مختصر تفسیر شائع فرمایا جو تفسیرصغیر کے نام سے معروف ہے۔ 1974ء میں مکرم پیر صلاح الدین صاحب نےایک ترجمہ و تفسیر کیا۔ 1977ء میں مکرم مولوی عبدالرحمان مبشر صاحب آف ڈیرہ غازی خان نے ایک ترجمہ شائع کیا جو تحت اللفظ ترجمہ ہے۔ 2000ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک ترجمہ کیا۔ 2007ء میں مکرمہ کفیلہ خانم صاحبہ نے مناہل العرفان کے نام سے قرآنِ کریم کا ایک ترجمہ وتفسیر کی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ہدایت پر انگریزی ترجمہ قرآنِ کریم کا کام مولوی محمد علی صاحب کے سپرد کیا گیا اور اس کے لئے انہیں تمام ممکنہ ضروری سہولیات فراہم کی گئیں اور زرِکثیر خرچ کیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ خود بنفس نفیس انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹس سنتے اور حقائق و معارفِ قرآن بیان فرماتے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ انگریزی ترجمہ قرآن جلد شائع ہو۔ ترجمہ کے نوٹ آخری مراحل پر تھے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات ہوگئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدّین محمود احمد خلیفۃالمسیح منتخب ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بعد میں وہ قادیان کو چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگئے اور ترجمہ قرآن کا وہ مسودہ جو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی زیرِہدایت ونگرانی تیار ہوا تھا وہ بھی ساتھ لے گئے۔ اس کے بعدحضرت مصلح موعود نے اس طرف توجہ فرمائی۔ آپؓ نے 1915ء میں ایک پارہ کی تفسیر خود لکھی اور وہ اردو اور انگریزی میں طبع بھی ہوئی۔ اور فرمایا کہ مَیں ایک نمونہ قائم کر رہا ہوں۔ جماعت کے علماء کا کام ہے کہ وہ اسی طرز پر اس کو آگے بڑھائیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ، خان بہادر ابوالہاشم خان صاحبؓ اور ملک غلام فرید صاحبؓ کو یہ ذمہ داری سونپی اور ان کی مجموعی کوششوں سے ایک مکمل اور مستند انگریزی ترجمہ اور پھر اس کی تفسیر بھی شائع ہوئی۔ قرآن مجید کی انگریزی تفسیر قریباً ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جو عجیب و غریب قرآنی معارف کا حسین و دلفریب مرقع ہے۔ اس کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کا دیباچہ بھی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے چوٹی کے اہلِ علم نے اس کو سراہا۔ اسی طرح مسلمان مشاہیرنے بھی اس کی تعریف کی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے 1944ء میں مختلف زبانوں میں تراجم قرآنِ کریم کی اشاعت سے متعلق خصوصی تحریک فرمائی۔ چنانچہ آپ نے 20 اکتوبر1944ء کو دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں انگریزی (انگریزی میں ترجمہ پہلے سے مکمل ہو چکا تھا)، روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالوی، ڈچ، ہسپانوی اور پرتگیزی زبان میں قرآن مجید کے تراجم کی عظیم الشان تحریک فرمائی اور پھر اپنے عہدِ خلافت میں اس کی تکمیل کے لئے کامیاب جدوجہد فرمائی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے الفاظ میں پیشگوئی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے جماعت احمدیہ کے افراد مرد و زَن نے اس تحریک پر جس شان کے ساتھ اور والہانہ طور پر لبّیک کہا وہ غیرمعمولی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے اندازہ کے مطابق ان تراجم اور ان کی چھپوائی کے لئے ایک لاکھ 94ہزار روپے کی ضرورت تھی جس کا آپ نے جماعت سے مطالبہ کیا۔ لیکن مسیح پاک اور خلافتِ حقّہ کی فدائی جماعت نے دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے وعدے قلیل عرصہ میں پیش کر دئیے اور پھر ان کا اکثر حصہ وصول ہو گیا اور دو سال کے عرصہ میں مذکورہ بالا ساتوں زبانوں میں تراجم مکمل ہوگئے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: قرآن کے سات مختلف زبانوں میں جو تراجم ہو رہے تھے وہ خداتعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوگئے ہیں اور ان کی ایک اور نقل بینک میں محفوظ کرلی گئی ہے۔ صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ہمارے مبلغین ان زبانوں کو سیکھ کر ان پر نظرثانی کرلیں تا غلطی کا امکان نہ رہے۔ (الفضل 28دسمبر1946ء) الغرض حضرت مسیح موعودؑ کے مقدس خلفاء کی نگرانی میں اور ان کی تحریکات کے مطابق مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کا مبارک سلسلہ مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ خلافت ثانیہ کے عہد میں مندرجہ ذیل پانچ زبانوں میں مکمل تراجم طبع ہوئے۔

جبکہ ڈینش میں پہلے سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اوریوگنڈا کی زبان لوگنڈا میں پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اور مینڈے زبان میں پہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہوا۔ خلافتِ ثالثہ کے دَور میں یہ سلسلہ آگے بڑھا اور چار مزید زبانوں میں مکمل قرآنِ کریم کے تراجم طبع ہوئے۔

اسی طرح انگریزی میں تفسیرالقرآن کا ایک جلد میں خلاصہ پہلی بار شائع ہوا۔ نیز سویڈش اور فجین زبان میں جزوی طورپر بعض پاروں کا ترجمہ طبع ہوا۔ خلافت رابعہ کے پہلے دو سالوں (1982-1983ء) میں گور مکھی اور لوگنڈا زبان میں مکمل قرآنِ کریم کے تراجم طبع ہوئے۔ 1984ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کو پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے ظالمانہ آرڈیننس 20 کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی اس وقت تک گیارہ زبانوں میں مکمل قرآنِ کریم کے تراجم شائع ہو چکے تھے۔ 1989ء کا سال جماعت کی تاسیس پر سو سال مکمل ہونے کے لحاظ سے صد سالہ جوبلی کا سال تھا اور جماعتی تاریخ میں یہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے شایانِ شان دیگر پروگراموں کی طرح مختلف زبانوں میں تراجم قرآنِ کریم کی اشاعت کا منصوبہ بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے اپریل 1984ء میں پاکستان سے ہجرت کے بعد سے جولائی 1989ء تک کے ہجر ت کے پانچ سالوں میں حسب ذیل 15 نئی زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم طبع ہوئے۔

1989ء میں کئی تراجم طباعت کے مختلف مراحل میں تھے اور جلسہ سالانہ یُوکے (جولائی 1989ء)تک شائع نہیں ہو سکے تھے۔ چنانچہ اگست 1989ء سے جولائی 1990ء تک کے صرف ایک سال کے عرصہ میں حسبِ ذیل 15 مزید نئی زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم شائع کرنے کی سعادت جماعت کو حاصل ہوئی۔

اس طرح 1984ء میں جماعت کے زیر انتظام مختلف زبانوں میں شائع کر دہ تراجم قرآنِ کریم کی جو تعداد صرف گیارہ تھی وہ جولائی 1990ء تک 42میں تبدیل ہو چکی تھی۔ چھ سال کے قلیل عرصہ میں 31نئے تراجم کے ساتھ یہ قریباًچار گنا اضافہ تھا اور ابھی کئی تراجم تکمیل کے بعد طباعت کے مختلف مراحل میں سے گزر رہے تھے۔ چنانچہ 1994ء تک جماعت احمدیہ کوآٹھ مزید زبانوں کے اضافہ کے ساتھ مجموعی طور پر پچاس زبانوں میں تراجم قرآنِ کریم کی طباعت کی سعادت حاصل ہوچکی تھی۔

یوں 1982ء سے لے کر2003ء تک صرف خلافتِ رابعہ کے اکیس سالہ عہد سعادت میں 47 زبانوں میں مکمل قرآن مجید کے تراجم طبع ہوئے۔ جبکہ اس کے علاوہ تھائی(1999)، میانمار (2003ء) اور جاوانیز (2000ء) زبانوں میں پہلے دس پاروں کا ترجمہ شائع ہوا۔ خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے تراجم قرآنِ کریم کی تیاری اور ان کی اشاعت کا یہ کام بلندی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ چنانچہ 2003ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس کے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد سے اب تک درج ذیل19 نئی زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم طبع ہو چکے ہیں۔

تھائی (پارہ نمبر 11 تا 20 کا ترجمہ 2006ء میں شائع ہوا،جبکہ مکمل ترجمہ قرآنِ کریم جون 2008ءمیں طبع ہوا)

میانمار(پارہ نمبر 11 تا 20 کا ترجمہ 2012ء میں شائع ہوا، جبکہ مکمل ترجمہ قرآنِ کریم جولائی 2015ءمیں طبع ہوا)

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے زیرِاہتمام انگریزی زبان میں لفظی اور با محاورہ ترجمہ شائع کیا گیا۔اس کے علاوہ کئی تراجم کے نئے ایڈیشن بہتر کمپوزنگ اور تراجم کی نظر ثانی اور ان میں تشریحی نوٹس کے اضافوں کے ساتھ بھی شائع ہوئے۔ اور اشاعت قرآنِ کریم کا یہ سلسلہ خلافت حقہ کی برکت سے مسلسل ترقی پذیر ہے، اَللھُمَّ زِدْ وَ بَارِکْ۔ خلافت خامسہ کے مبارک عہد میں جماعت کی طرف سے پہلی بار نابینا افراد کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا انگریزی ترجمہ قرآن بریل (Braille) میں شائع ہوا ۔ اس کے پہلے ایڈیشن 2004ء کے بعد اب تک چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ غرضیکہ ساری دنیا میں خلافتِ احمدیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ وہ واحد جماعت ہے جسے تن تنہا اتنی بہت سی زبانوں میں تراجم قرآنِ کریم کی اشاعت کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود اور آپ کے مقدس خلفائےکرام اور آپ کے سچے متبعین ہی وہ سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ ہیں جن کے ہاتھوں میں خداتعالیٰ نے دنیا بھر میں قرآن کی سچی خدمت اور اس کی عظمت کے اظہار کا علَم تھمایا ہے۔ جو کسی تلوار اور نیزہ سے نہیں، کسی بندوق یا توپ یا بم کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کا حربہ ہاتھ میں لے کر، اس کے نُور کو اپنے سینوں میں بسا کر، حجّت اور بُرہان اور زمینی و آسمانی نشانات اور الٰہی نصرت و تائیدات کے ساتھ ساری دنیا میں جہاد کبیر میں مصروف ہیں۔ اور صرف اپنے قول سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے قرآنی تعلیمات کی حقّانیت اور قرآنی برکات و تاثیرات کے تازہ بتازہ اور شیریں و خوشبودار ثمرات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس کتاب کے زندہ کتاب ہونے اور اس کی عظمتوں پر گواہ ہیں۔  

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • نُورِ ہدایت

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث