1928ء کا نہایت مہتم بالشان اور تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق واقعہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھوں سیرت النبیﷺ کے جلسوں کی بنیاد ہے۔ ان جلسوں نے برصغیر ہند و پاک کی مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا۔
اللہ تعالیٰ نےحضرت مصلح موعودؓ کے دل میں یہ تحریک 1927ء کے آخر میں اُس وقت القا فرمائی جب ہندوؤں کی طرف سے کتاب ‘‘رنگیلا رسول’’ اور رسالہ ‘‘ورتمان’’ شائع کرکے آنحضرتﷺ کی شان مبارک میں انتہائی قابل مذمّت گستاخیاں کی گئیں اور برصغیر میں مذہبی کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اس نازک موقع پر آنحضرتﷺ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لیے ملکی سطح پر ایک کامیاب مہم شروع فرمائی جو اسلامی دفاع کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ جس نے نہ صرف مخالفین اسلام کی چیرہ دستیوں کا سدّباب کرنے میں مضبوط دیوار کا کام دیا بلکہ نبی کریمﷺ کے نام لیواؤں کو عشق رسولؐ کے عظیم الشان جذبہ سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ مگر حضورؓ کے مضطرب اور درد آشنا دل نے اسی پر اِکتفا نہ کیا بلکہ آپ نے اعلان کیا کہ جب تک آنحضرتﷺ کے مقدّس حالات زندگی اورعالمگیر احسانات کے تذکروں سے ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اٹھے گا، اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے ‘‘سیرت النبیﷺ’’ کے جلسوں کی تجویز فرمائی۔ چنانچہ حضورؓ ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘لوگوں کو آپؐ پر حملہ کرنے کی جرأت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ آپؐ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں۔ یا اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپؐ کے حالات ِزندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپؐ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے۔ جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریمﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ رسول کریمﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے۔ اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں’’۔
(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 271،272)
نیز فرمایا: ‘‘آنحضرتﷺ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے۔ کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو اسے کہا جائے گا دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے۔ تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریمﷺ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریمﷺ سے نیچے ہیں اور آپﷺ سب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہوسکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو…. رسول کریمﷺ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں ایسے حملوں کے دفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریمﷺ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں۔ جب وہ آپﷺ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے’’۔ (خطبات محمود جلد 11 صفحہ 361،362)
اس تحریک کے مطابق 17 جون 1928ء کو ملک بھر میں جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ منعقد کئے گئے جن میں مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے سعیدالفطرت لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے شامل ہو کر اپنی عقیدت و محبّت کا اظہار کیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں مختلف الخیال لوگوں کا ایک پلیٹ فارم سے حضورﷺ سے اظہار عقیدت کا یہ ایسا مظاہرہ تھا جس کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان جلسوں کی کامیابی کا یہ بھی ایک نمایاں رخ ہے کہ حضورﷺ کی سیرتِ مقدّسہ کا علم ہونے سے غیرمسلموں کے حملوں کا نہ صرف بہت حد تک سدِّباب ہوگیا بلکہ بہت سے ایسے غیرمسلم اہلِ قلم سامنے آئے جنہوں نے نہایت شاندار الفاظ میں حضورﷺ کی سیرت پر تقریر و تحریر کے ذریعہ اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔ اب یہ جلسےعالمگیر صورت اختیار کرچکے ہیں اور اس وقت تمام دنیا میں جہاں بھی جماعت احمدیہ موجود ہے نہایت جوش و جذبہ سے سارا سال عموماً اور ماہ ربیع الاوّل میں خصوصاًجلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

(اخبار احمدیہ جرمنی ستمبر 2024ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سیرت النبیﷺ جماعت احمدیہ کیل