مضمون:مکرم صادق محمد طاہر صاحب

اس زمانہ ميں اللہ تعاليٰ نے سيّدنا حضرت اقدس محمدمصطفيٰﷺ کے دينِ کامل کے اتباع ميں راہ پانے والي کمزوريوں کو دور کرنے کے ليے آپﷺ کے ہي ايک غلامِ کامل اور عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قاديانيؑ کو ايک گمنام بستي ميں اپنے وعدہ کے موافق مسيح موعود و مہدي معہود بنا کر بھيجا اور آپ کو جہاں يہ بشارت دي کہ ’’مَيں تيرے دلي محبّوں کا گروہ بڑھاؤں گا‘‘  وہاں يہ نويد بھي دي کہ ’’يَنْصُرَکَ رِجَالٌ نوْحِيْ اِلَيْہِ مِنَ السَّمآءِ‘‘ يعني تيري نصرت و تائيد ايسے لوگ کريں گے جن کو ہم آسمان سے وحي کريں گے۔

چنانچہ خداتعاليٰ کي يہ تقدير غالب آتي گئي اور سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعودکے گرد نيک اور تقويٰ شعار روحاني طيور کي ايک کثير تعداد جمع ہونے لگي۔ اب اس کثرت پر طبعي طور پر نيکي اور تقويٰ کے اس معيار کو نہ صرف برقرار رکھنے کے ليے بلکہ اس ميں مزيد ترقي کي خاطر ’’فَصُرْ ھُنَّ اِليک‘‘ کے قرآني نسخہ کے مطابق آپ نے سال ميں ايک بار کم از کم جمع ہو کر الٰہي معارف کے سننے سنانے کا ارشاد فرمايا اور اس کے متعلق آپ نے فرمايا کہ ’’يہ وہ اَمر ہے جس کي خالص تائيد حق اور اعلائے کلمۂ اسلام پر بنياد ہے‘‘۔

يہ اجتماع جلسہ سالانہ کے نام سے 1891ء سے شروع ہو کر آج تک جاري ہے اور آج دنيا کے ستر سے زائد ممالک تک پھيل چکا ہے۔ گو اس ميں بعض مشکلات بھي پيش آئيں تاہم اللہ کے فضل سے اعلائے کلمہ اسلام کي يہ مہم جاري و ساري ہے۔ اس کے اغراض و مقاص بيان کرتے ہوئے حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں:

’’آج کے دن کے بعد جو 30 دسمبر1891ء ہے آئندہ اگر ہماري زندگي ميں 27 دسمبر کي تاريخ آجاوے توحتي الوسع تمام دوستوں کو محض للہ رَبّاني باتوں کے سننے کے لئے اور دعا ميں شريک ہونے کے ليے اس تاريخ پرآ جانا چاہيے… دوستوں کو محض للہ ربّاني باتوں کے سننے کے ليے اور دعا ميں شريک ہونے کے ليے اس تاريخ پر آ جانا چاہيے اور اِس جلسہ ميں ايسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ايمان اور يقين اور معرفت کو ترقي دينے کے ليے ضروري ہيں اور نيز ان دوستوں کے ليے خاص دعائيں اور خاص توجہ ہوگي اور حتي الوسع بَدَرگاہِ اَرحَمُ الرّاحمين کوشش کي جائے گي کہ خدائے تعاليٰ اپني طرف ان کو کھينچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبديلي اُن ميں بخشے۔ اور ايک عارضي فائدہ ان جلسوں ميں يہ بھي ہوگا کہ ہر يک نئے سال ميں جس قدر نئے بھائي اس جماعت ميں داخل ہوں گے۔وہ تاريخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائيوں کے منہ ديکھ ليں گے اور رُوشناسي ہو کر آپس ميں رشتہ تَوَدُّد و تعارف ترقي پذير ہوتا رہے گا‘‘۔ (آسماني فيصلہ، روحاني خزائن جلد4 صفحہ375-376)

ان ارشادات ميں حضور نے اس کي اہميت، برکات اور فوائد بھي بيان فرما دئيے ہيں۔ اللہ ہميں ان کا حقيقي وارث بنائے آمين۔

اس للّہي جلسہ کے انعقاد کے ليے سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعودنے جب اشتہار شائع فرمايا تو ملک بھر ميں مولويوں کي طرف سے فتويٰ کفر نے مخالفانہ فضا قائم کر دي۔ اسي طرح مسجد چينياںوالي لاہور کے امام مولوي رحيم بخش نے زور و شور سے فتويٰ ديا کہ ايسے جلسے ميں جانا بدعت ہے بلکہ معصيت ہے اور جو شخص اسلام ميں ايسا امر پيدا کرے وہ مردود ہے۔

دوسرے اقتصادي اعتبار سے بھي اس کا جاري رہنا بظاہر ناممکن تھا ليکن اللہ تعاليٰ نے تائيدِ غيبي سے اس مبارک تقريب کے جاري رہنے کے سامان بھي پيدا کردئيے۔

حضرت منشي ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوي کا بيان ہے:

’’ايک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ مہمان خانہ کے ناظم مير صاحب نے حضور کي خدمت ميں عرض کيا کہ رات مہمانوں کے ليے کوئي سالن نہيں ہے۔ آپؑ نے فرمايا کہ بيوي صاحبہ سے کوئي زيور لے کر جو کفايت کرسکے، فروخت کرکے سامان کرليں۔ چنانچہ زيور فروخت يا رہن کرکے مير صاحب روپيہ لے آئے اور مہمانوں کے ليے سامان بہم پہنچا ديا۔ دو دن کے بعد پھر مير صاحب نے رات کے وقت ميري موجودگي ميں کہا کہ کل کے ليے پھر کچھ نہيں۔ فرمايا کہ ہم نے برعايت ظاہري اسباب کے انتظام کر ديا تھا۔ اب ہميں ضرورت نہيں، جس کے مہمان ہيں وہ خود کرے گا۔

اگلے دن آٹھ يا نو بجے جب چٹھي رساں آيا تو حضورؑ نے مير صاحب کو اور مجھے بلايا۔ چٹھي رساں کے ہاتھ دس يا پندرہ کے قريب مني آرڈر ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے تھے۔ سو سو پچاس پچاس روپے کے۔ اور ان پر لکھا تھا ہم حاضري سے معذور ہيں۔ مہمانوں کے صرف کے ليے يہ روپے بھيجے جاتے ہيں۔ آپ نے وصول پا کر توکل پر تقرير فرمائي۔ فرمايا جيسا کہ ايک دنيا دار کو اپنے صندوق ميں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا۔ اس سے زيادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعاليٰ پر پورا توکل کرتے ہيں اللہ تعاليٰ پر يقين ہوتا ہے اور ايسا ہي ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتي ہے تو فوراً خداتعاليٰ بھيج ديتا ہے۔ (تاريخ احمديت جلد اوّل صفحہ 444-445)

چنانچہ اللہ کے فضل و کرم اور اس کي تائيدات کے يہ نظارے ايک سو بتيس سال سے مسلسل آج تک ہميں نظر آتے ہيں۔ 1891ء کے پہلے جلسہ ميں حضرت اقدس مسيح موعود کي آواز پر لبيک کہتےہوئے 27 دسمبر کو مسجد اقصيٰ ميں احباب جمع ہوئے۔ بعد نماز ظہر اجلاس کي کارروائي شروع ہوئي۔ سب سے قبل مولانا عبدالکريم صاحب سيالکوٹيؓ نے حضرت اقدس کي تازہ تصنيف ’’آسماني فيصلہ‘‘  پڑھ کر سنائي۔ پھر يہ تجويز رکھي گئي کہ مجوزہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان ہوں اور کسي طرح کارروائي کا آغاز ہو۔ حاضرين نے بالاتفاق قرار ديا کہ سرِدست يہ رسالہ شائع کر ديا جائے اور مخالفين کا عنديہ معلوم کرکے بتراضي فريقين انجمن کے مقرر کئے جائيں۔ اس کے بعد جلسہ ختم ہوا اور حاضر احباب نے امام آخرالزمان سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعودسے مصافحہ کي سعادت و شرف حاصل کيا۔ اس جلسہ ميں 75 احباب شامل ہوئے تھے۔

(تاريخ احمديت جلد اوّل صفحہ 440)

1892ء ميں جماعت احمديہ کا دوسرا جلسہ سالانہ 27 اور 28 دسمبر کو منعقد ہوا۔ جس ميں حضرت حکيم مولانا نورالدين صاحبؓ (خليفةالمسيح الاوّل) نے وفات مسيح سے متعلق ايک پُرمعارف تقرير کي۔ ازاں بعد سيّد حامد شاہ صاحب نے ايک قصيدہ سنايا۔ اس کے بعد حضرت اقدس نے ’’توضيح مرام‘‘  کا وہ مقام نکالا جس پر مولويوں نے ملائکہ کي بحث پر ناداني سے اعتراض کيا تھا اور بڑي شرح و بسط سے ايک روح پرور تقرير فرمائي جس سے حاضرين کے دل پگھل گئے۔ دوسرے دن يورپ اور امريکہ ميں تبليغ اسلام کے ليے ايک مجلس شوريٰ منعقد ہوئي۔ (تاريخ احمديت جلد اوّل صفحہ 443)

1893ء کا جلسہ حضور کي ہدايت پر منعقد نہيں کيا گيا۔ اس کے بعد 1946ء تک جلسہ ہائے سالانہ اس مقدّس سرزمين قاديان ميں منعقد ہوتے رہے۔ 1899ء سے رپورٹ اخبار الحکم اور البدر کے اجراء کے ساتھ باقاعدگي سے شائع ہوتي رہي۔

ملکي تقسيم کے بعد 1947ء کا جلسہ مسجد اقصيٰ قاديان ميں ہي منعقد ہوا اور پھر 1948ء ميں باب الانوار کے پرانے زنانہ جلسہ گاہ ميں منتقل کر ديا گيا۔ ہجرت 1947ء تقسيم پاک و ہند کے بعد قاديان ميں تسلسل سے جلسہ ہوتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ خليفةالمسيح کے پاکستان سے ہجرت کر آنے کي وجہ سے پاکستان ميں بھي اس کا سلسلہ جاري ہو گيا اور ايک جلسہ لاہور ميں ہوا اور پھر 1948ء کا جلسہ سيّدنا حضرت مرزا بشيرالدين محمود احمدؓ خليفةالمسيح الثاني کي سربراہي ميں دسمبر کي بجائے اپريل 1949ء ميں ربوہ ميں منعقد ہوا۔ پھر 1949ء تا 1983ء ہر سال دسمبر ميں باقاعدگي کے ساتھ ربوہ ميں منعقد ہوتا رہا۔ ربوہ ميں ہونے والے آخري جلسہ سالانہ کي حاضري پونے تين لاکھ کے قريب تھي۔

سيّدنا حضرت مرزا طاہر احمد خليفةالمسيح الرابعؒ کي لندن ہجرت کے بعد 1985ء سے يہ جلسے انگلستان ميں منعقد ہو رہے ہيں۔ جن ميں پہلے اسلام آباد اور پھر اب حديقةالمہدي ميں منعقد ہوتا ہے۔

سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعودکو اللہ تعاليٰ کي طرف سے ملنے والي بشارات کو ہم ہر سال ايک نئي شان کے ساتھ پورا ہوتے ديکھ رہے ہيں اور يہ جلسے نہ صرف ہندوستان، پاکستان اور انگلستان بلکہ دنيا بھر ميں وسعت اختيار کرچکے ہيں۔ جن ميں مرکزي جلسہ خليفۂ وقت کي موجودگي ميں ہوتا ہے۔ بعض ممالک ميں حضورانور اپني مصروفيات کے باوجود بنفس نفيس تشريف لا کر ان جلسوں کو رونق بخشتے ہيں اور احباب کو خلافت کي برکات سے فيض ياب ہونے کا موقع ميّسر آتا ہے۔ اب تو بفضلِ خدا سينکڑوں ممالک ميں احباب اپنے گھروں ميں براہِ راست سوشل ميڈيا کے ذريعہ اس سے فيضياب ہوتے ہيں۔

يہ شجرۂ طيّبہ اب حضرت مسيح موعود کو عطا کي گئي پيش خبريوں کے مطابق دنيا پر محيط ہوچکا ہے اور مختلف قوميں اس ميں آ ملي ہيں اور 70 سے زائد ممالک ميں اس کي شاخيں پھيل چکي ہيں۔ ان ميں شامل ہونے والے غيراز جماعت کيا مسلم اور غيرمسلم اس روحاني اور بابرکت نظام ميں شموليت کي سعادت پاتے ہيں اور ہر سال لاکھوں افراد جماعت احمديہ مسلمہ ميں شامل ہو کر اس شجر سايہ دار کي آغوش ميں پنا ہ ليتے ہيں۔ اللہ تعاليٰ ہميں اس کي برکات سے کماحقّہ فيضياب ہونے کي سعادت عطافرمائے، آمين۔

 

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء