تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوگا

سیدنا حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں

’’ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے۔ یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا۔ حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں۔ کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے۔ میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں‘‘۔

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254-255 حاشیہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں

’’ اگر تم اس سال محض یہ عہد کرلو کہ ہم نے محنت کرنی ہے اور ہماری محنت سے ہی اعلیٰ نتائج پیدا ہوں گے۔ اور اگر ہمارے کسی کام کے اعلیٰ نتائج پیدا نہ ہوئے تو ہمیں اقرار کرنا ہوگا کہ ہم نے محنت نہیں کی یا کوئی حماقت کی ہے جس کی وجہ سے ہماری محنت کا صحیح نتیجہ نہیں نکلا تو تمہاری کایا پلٹ سکتی ہے۔ پس تم یہ سال اِس نئے ارادہ اور عزم سے شروع کرو۔ اس کے نتیجہ میں تم اگلا سال اس سے بھی نیک اور اعلیٰ ارادہ سے شروع کروگے۔ اورتم اپنے ایمانوں میں ایسی پختگی دیکھو گے جس کو کوئی شخص توڑ نہیں سکے گا‘‘۔

(خطبات محمود جلد 36 صفحہ 9)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں

’’ چاہیئے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے۔ انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے۔ جو ہر وقت مبدل ہے۔ کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے۔ جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہو رہا ہےاور اس کے ذرات جدا ہوتے جاتے ہیں اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیا کیے جاتے ہیں تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہئے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جواب دہی لازم ہے۔ اس آنی فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے کاش کہ اتنا فکر اس کے نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے والا ہے‘‘۔

(حقائق الفرقان جلد4 صفحہ 67)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں

’’ مومن کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ اس کو مزید رفعتوں کی طرف لے جاتا ہے اگر وہ حقیقی اور مخلص مومن ہو اور اس کی زندگی کا ہر نیا سال اسے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب کر دیتا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اسے زیادہ معزز بنا دیتا ہے۔ پس ہر نیا سال جو ہماری زندگیوں میں آتا ہے وہ ہم پر پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں بھی ڈال رہا ہوتا ہے اور پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہماری عزت کے سامان بھی پیدا کر رہا ہوتا ہے اور مومن بندہ مخلص اللہ کے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے تو میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان معنی میں جو قرآن کریم نے ہمیں بتائے ہیں، ہمارا یہ سال جو ہم پر چڑھا ہے پہلے سے زیادہ برکتوں والا سال ہو‘‘۔

 (خطبات ناصر جلد 2 صفحہ 455)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

’’ جماعت احمدیہ کا ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے لازماً بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ جماعت احمدیہ پر کوئی ایسا سال طلوع کرے جو پچھلے سالوں سے کسی طرح نیکیوں میں پیچھے رہ جائے وہ ضرور آگے بڑھتا ہے اور اس کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ سے براہِ راست ہے کیونکہ آپ کے ساتھ خداتعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور وہ وعدہ ہر اس شخص کے حق میں اور اس جماعت کے حق میں لازماً پورا ہوگا جو حضرت محمد رسول اللہﷺ سے اپنا ذاتی تعلق پختہ کرلیتا ہے یا کرلیتی ہے۔ وہ وعدہ ہے۔ وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی۔ (الضحیٰ:5) تیرے لئے یہ قانون ہے جو اٹل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں، تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوگا‘‘۔

(خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 9)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’’ ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے۔ اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسولﷺ پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل 20 جنوری 2017ء صفحہ 6۔ خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2016)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 5)