پچیسویں قسط

یہ تو اب آپ کو اَزبر ہوگا کہ جرمنی مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا، اس کے علاوہ دو بڑی سلطنتیں آسٹریا اور پرشیا اس کا حصہ تھیں۔ یہ سب ایک alliance میں متحد تو تھیں (Deutscher Bund) لیکن اصلاً آزاد حیثیت قائم تھی۔ اب ایک متحد، آزاد اور جمہوری جرمن ملک کے لیے آوازیں بلند ہو رہی تھیں جس میں طلبا کی تنظیمیں پیش پیش تھیں۔ اسی زمانے میں ان تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئیں اور ان میں شامل لوگوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔
لیکن ان سزاؤں سے یہ سیلاب رکنے والا نہیں تھا۔ جب پریس کی بندش، طلبا اور سیاسی تنظیموں اور جلسوں پر پابندی لگی تو امرا کا طبقہ جمناسٹک اور موسیقی کی تنظیموں میں اکٹھا ہو کر سرگرم ہونے لگا۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ ایک جرمن زبان کے پروفیسر Fallersleben کے لکھے ہوئے گیتوں میں سے ایک Einigkeit und Recht und Freiheit اسی زمانے میں ان تنظیموں میں جوش و خروش سے گایا جاتا تھا۔ جی، یہی آج جرمنی کا قومی ترانہ ہے۔ جرمنی میں ایک قومی شناخت از خود اُبھر رہی تھی۔ تعلیم کے فروغ کے ساتھ شعور بےدار ہو رہا تھا۔ شخصی آزادی، جمہوریت، آزادیِ اظہار وغیرہ کی ساری روداد پچھلی قسطوں میں بیان ہو چکی ہے۔ یہ فکری تصورات اب عوام میں جڑ پکڑ رہے تھے۔ اور نپولین کی ناکام کوشش نے قومی یک جہتی کو مہمیز لگادی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹریل انقلاب کی وجہ سے مزدور طبقہ سرمایہ دار کے مکمل شکنجے میں تھا اور اس کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی تھی۔ ان کی اُجرت ان کے گھروں کو پالنے کے لیے ناکافی تھی۔ لہٰذا ان کا متحد ہونا اور احتجاج کی راہیں نکالنا اب زود یا بہ دیر ہونا ہی تھا۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے قوانین کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ 4 جون 1844ء میں تین ہزار جولاہوں نے احتجاج کیا۔ جب ان کے احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا تو انہوں نے اپنے سرمایہ داروں پر ہلہ بول دیا اور ان کے گھروں اور کارخانوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ تین دن بعد پرشیا کی افواج نے خوں ریزی کے ساتھ اس احتجاج کا گلا گھونٹ دیا۔ جرمنی میں غربت کا ایک اور سبب نہایت خراب کاشت تھی۔ سالانہ ہزاروں لوگ ہجرت کر رہے تھے۔ اسی دوران فرانس میں ایک بار پھر انقلاب برپا ہوا۔ اور فرانسیسی عوام پر مسلط بادشاہ کو عوام نے معزول کر دیا۔
اب 1848ء میں جرمنی کے عوام بھی سڑکوں پر آ گئے۔ جرمنی کی سلطنتوں میں یکے بعد دیگرے بڑے بڑے جلوس اور احتجاج ہونے لگے۔ مطالبات یہی تھے۔ پریس کی آزادی، تنظیم سازی کی آزادی اور ایک قومی پارلیمان۔ آسٹریا کے بادشاہ نے مطالبات پر رضامندی کی یقین دہانی کر دی۔ 18 مارچ کو برلن میں ایک جلسے کے موقعے پر دنگے فساد ہوئے جس میں254 افراد جاں بحق ہوئے، تاہم پرشیا کے بادشاہ نے اگلے دن مقتولین کو سلام پیش کیا اور یقین دلایا کہ ان کے مطالبات منظور ہیں۔ جب آسٹریا اور پرشیا نے مطالبات منظور کرلیے اور ایک تحریری آئین کی یقین دہانی کر دی تو تمام چھوٹی ریاستوں نے بھی حامی بھر لی۔ فرانکفرٹ کے Paulskirche میں 18 مئی 1848ء کو جرمنی کی پہلی منتخب اسمبلی کا اجلاس ہوا جو 585 نمائندگان پر مشتمل تھا۔ جرمنی میں بسنے والے شہریوں کے بنیادی حقوق چند ماہ میں طے پاگئے، جن میں آزادیِ اظہارِ رائے، مذہبی آزادی، شخصی آزادی، ملک بھر میں سکونت کی آزادی وغیرہ شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ریاست کا نظام کیا ہوگا۔ اس میں تین بڑے گروہ تھے۔ ایک طرف نسلی بادشاہت کے حامی تھے، دوسری طرف پارلیمانی جمہوریت کے حامی اور تیسرا گروہ ان کے درمیان تھا جو پارلیمانی بادشاہت کا قائل تھا۔ اسی کے ساتھ دوسرا بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آسٹریا کو جرمنی کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ ایک لمبے عرصے سے جرمن قیصر آسٹریا سےتھا لیکن آسٹریا میں جرمن کے علاوہ اور بھی بہت سی اقوام بستی تھیں جن کا جرمن قوم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لمبی بحث و تمحیص کے بعد ایک کمزور اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ آسٹریا جرمنی کا حصہ نہیں ہوگا۔ جب یہ فیصلہ ہوگیا تو نظامِ حکومت یہ طے پایا کہ Executive طاقت نسلی قیصریت کی ہوگی اور قانون سازی پارلیمان کے ہاتھ میں ہوگی جس میں قومی پارلیمان کے منتخب اراکین بھی ہوں گے اور صوبوں کے نمائندگان بھی۔
پرشیا کے بادشاہ Friedrich Wilhelm IV کو جرمنی کا قیصر چنا گیا۔ مگر یہ بات بادشاہ سلامت کو ناگوار گزری کہ انہیں انقلابیوں نے منتخب کیا ہے۔ گویا کسی پارلیمان کی کیا مجال کہ بادشاہ کو بادشاہ بنائے۔ سو اس نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ باقی تمام صوبوں نے بادشاہ پر بہت دباؤ ڈالنے کی کوشش کی لیکن یہ ناکام رہے۔ خالص جمہوری پارلیمانی نظام لانے کی کوشش کو پرشیا کی فوج نے طاقت کے ساتھ ناکام بنا دیا۔ جرمنی کی پہلی پارلیمان آئینی بحران کی وجہ سے ایک سال میں ٹوٹ گئی اور جرمنی اپنی اس پہلی کوشش میں جرمنی نہ بن سکا۔ صوبے دوبارہ ریاستیں بن گئے اور اپنے اپنے تحریری آئین بنانے پر مجبور ہوگئے۔

حوالہ جات:

Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin
Schlaglichter der deutschen Geschichte, Helmut M. Müller, bpb, Brockhaus 2002

متعلقہ مضمون

  • چشم دید واقعات انتخابِ خلافت ثانیہ

  • حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قبل از خلافت ایک رؤیا

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • چند یادیں