جب 1848ء کا انقلاب ناکام رہا، جرمنی کی پہلی پارلیمان ٹوٹ گئی اور ملک بنتے ہی دوبارہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا تو جتنی کامیابیاں انسانی حقوق اور آزادی کی فراہمی کے لیے کی گئی تھیں، وہ بھی واپس پلٹ دی گئیں۔ ریاستوں میں آزادیاں سلب ہونے لگیں اور ریاستی جبر پہلے سے بڑھ گیا۔ انقلابی خاموش ہوگئے یا ہجرت کرگئے۔

لیکن سیاسی تاریخ کے اگلے مرحلے کی طرف رخ کرنے سے پہلے یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جائے جس کی فکر نے جرمنی ہی نہیں پوری دنیا کی سیاست اور معیشت پر اپنے اثرات چھوڑے۔ یعنی کارل مارکس۔

کارل مارکس 1818ء میں جرمنی کے شہر Trier میں پیدا ہوئے۔ مارکس نے فلسفے اور تاریخ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بطور مدیر ایک اخبار سے منسلک ہوگئے جس میں وہ سیاسی اور معاشرتی مسائل پر لکھتے رہے۔ مارکس کے نہایت تنقیدی مضامین کی وجہ سے پرشیا نے اس اخبار پر قدغن لگا دی۔ اس کے باعث مارکس اپنے اہل و عیال سمیت پیرس ہجرت کرگئے۔ وہاں ان کی ملاقات Friedrich Engels سے ہوئی۔ اور ان دونوں کی یہ دوستی تا دمِ آخر قائم رہی۔ اینگلس اور مارکس پہلے پیرس سے برسلز اور برسلز سے لندن منتقل ہوئے۔ 1848ء میں مارکس اور اینگلس نے اپنی تنظیم کے تحت پہلی مختصر مگر بڑی تحریر شائع کی۔ اس سے پہلے وہ مضامین تو لکھ چکے تھے لیکن اس مختصر سے رسالے نے دنیا میں ایک لمبے عرصے تک تہلکہ مچائے رکھا۔ اس رسالےکا نام تھا The Communistic Manifesto۔ اس مختصر رسالے میں اینگلس اور مارکس نے کمیون ازم کے بنیادی تصورات پیش کیے اور ایک ایسے معاشرے کے تار و پود بتائے جس میں کوئی طبقاتی تقسیم نہ ہو۔ انہوں نے سرمایہ داری پر کڑی تنقید کی اور پرولتاریا (پیشہ ور اور مزدور طبقہ) کو بورژوازی (سرمایہ دار) کے خلاف متحد ہونے کی پُرجوش دعوت دی۔ مارچ کے انقلاب کے وقت مارکس جرمنی کے شہر کولون میں بھی رہے اور انقلاب میں قلمی مدد سے سرگرم رہے۔ انقلاب کی ناکامی کے بعد واپس لندن آ گئے۔

لندن آ کر مارکس اپنے علمی اور تحقیقی کام میں منہمک ہوگئے۔ 1859ء میں ان کی سیاسی اقتصادیات کی تنقید پر ایک کتاب شائع ہوئی۔ اور 1867ء میں ان کی مشہورِ زمانہ کتاب Das Kapital کا پہلا حصہ چھپا۔ اس کتاب کی دوسری اور تیسری جلد ان کی وفات کے بعد اینگلس نے شائع کی تھی۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مارکس دوبارہ سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ لندن میں International Working Men’s Association کا حصہ رہے۔ اور جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک ورکنگ پارٹی کے منشور پر بھی تنقید لکھی۔

مارکس نے نہ صرف معاشیات پر لکھا ہے بلکہ انہوں نے ایک جامع تھیوری پیش کی ہے، جس کے تناظر میں تاریخ، عمرانیات اور ادب کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ انسانی تاریخ کو طبقاتی کشمکش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے مثالی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے لیے پرولتاریا کے انقلاب کی ضرورت ہے جن کے خون پسینے سے معاشرے کا سارا نظام چلتا ہے۔

خود مارکس کی زندگی میں کوئی کمیونسٹک ملک وجود میں نہیں آیا۔ اور بعد میں جو سوشلسٹک یا کمیونسٹک ممالک بنے ان میں اکثر مطلق العنانیت اور ظلم و بربریت کے راستے پر چل پڑے، گو ان کا فلسفہ مارکس ہی پر بنیاد رکھتا تھا۔ ان ملکوں نے کمیون ازم کو تو رائج کیا لیکن حقیقت میں مارکس کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ تاہم مارکس نے اپنی زندگی میں ملکوں ملکوں بننے والی مزدوروں کی تنظیمیں دیکھیں اور جرمنی کی تنظیم کے ساتھ خط و کتابت میں رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مزدوروں اور پیشہ ور طبقے کے حقوق کی فراہمی میں مارکس کی جد و جہد اور ان کے تصوّرات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

آج بھی مارکس کا اثر فلسفے، سیاست، ادب اور معیشت پر بہت گہرا ہے۔ مارکس کی فلسفیانہ اور معاشی و سیاسی تحریروں نے کئی نظام ہائے فکر کو جنم دیا ہے جنہیں مذہبی اصطلاح میں فرقے کہہ سکتے ہیں۔ 14 مارچ 1883ء کو مارکس طویل علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اینگلس نے ان کی تدفین کے وقت ایک یادگار تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ جس طرح ڈارون نے فطرت کی ارتقا کا نظام منکشف کیا تھا، اس طرح مارکس نے انسانی معاشرے کے ارتقائی قوانین کا انکشاف کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں مارکس کے لیے کیا خوب کہا تھا۔

آں کلیمِ بے تجلی، آں مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

یعنی وہ کلیم تھا مگر جس پر تجلی نہیں ہوئی اور وہ مسیح تھا جو صلیب پر نہیں چڑھا۔ وہ پیغمبر نہیں تھا لیکن اس کے ہاتھ میں بھی ایک کتاب تھی۔ (جاری ہے)

حوالہ جات:

Schlaglichter der deutschen Geschichte, Helmut M. Müller, bpb, Brockhaus 2002
www.bundesarchiv.de/DE/Content/Dokumente-zur-Zeitgeschichte/18180505-karl_marx.html

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 48)

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • تاریخ جرمنی

  • تاریخ جرمنی (چوبیسویں قسط)

  • تاریخ جرمنی (تئیسویں قسط)