جب نپولین روس سے ناکام لَوٹا تو پورا یورپ نپولین کے خلاف ہو چکا تھا۔ اور فرانس میں بھی اسے وہ حمایت حاصل نہ رہی جو پہلے تھی۔ پھر 1815ء میں Waterloo کے مقام پر جنگ ہوئی۔ اس میں فرانس ایک طرف تھا اور برطانیہ اور جرمنی کی سلطنتیں دوسری طرف تھیں۔ جرمنی اور برطانیہ یہ فیصلہ کن جنگ جیت گئے۔ شکست خوردہ نپولین بےیار و مددگار رہ گیا۔ وہ پارلیمان کی حمایت بھی کھو چکا تھا اور جمہور کا ساتھ بھی۔ اسے وطن بدر کر دیا گیا اور اس نے اپنی باقی زندگی Saint Helena نامی ایک جزیرے پر کسی قدر شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ گزاری۔

نپولین سے آزادی کے بعد یورپ بھر میں بڑے پیمانے پہ تبدیلیاں ہونے لگیں۔ اس دور کو Restauration کا دَور کہا جاتا ہے یعنی یورپ کو پیش از نپولین والی شکل میں واپس لانا مقصود تھا۔ فرانس چند سال کی جمہوریت کے بعد اب دوبارہ بادشاہت بن چکا تھا۔ یورپ کی تمام بڑی طاقتیں Congress of Vienna میں 1815ء میں بیٹھیں۔ اس دور کا روحِ رواں آسٹریا کا چانسلر Metternich تھا جو خود ایک نواب تھا۔ اس کانگریس کا ایک بڑا موضوع جرمنی کی نئی تقسیم بھی تھا۔ جرمنی اس وقت 39 سلطنتوں اور ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ان سب کو آزاد رکھا گیا لیکن آسٹریا کی بادشاہت کے زیرِنگران بھی کر دیا۔ یوں جرمنی نہ تو متحد ہو کر خود ایک طاقت بنا نہ فرانس، رُوس، آسٹریا یا پرشیا کے مکمل قبضے میں آ کر ان کی طاقت میں اضافے کا باعث ہوا، بلکہ یورپ کی طاقتوں میں تناسب قائم کرنے والا بن گیا۔

جرمنی ابھی جرمنی نہیں بنا تھا لیکن اس کی ابتدا یہاں سے ہو چکی تھی۔ Frankfurt میں تمام جرمن ریاستوں کے سربراہ مشاورت کے لیے جمع ہوا کرتے تھے۔ جرمنی کے عوام متحد ہونا چاہتے تھے۔ نیشنل ازم ایک تحریک کے طور پر اس زمانے میں اُبھر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور شخصی آزادی کے مطالبات بھی بالخصوص طلباء کی طرف سے اُٹھنے لگے تھے۔ خود جرمنی کی ریاستوں کے نواب اور حکام کی، اسی طرح آسٹریا اور پرشیا کے بادشاہوں کی دلچسپی اسی میں تھی کہ یہ ملک ایک متحدہ ریاست نہ بنے۔ فرانکفرٹ میں بیٹھنے والے کانگریس کو بھی جوڑے رکھنے کا ایک سبب اس تحریک کو دبانے کی تدبیر کرنا تھی۔ لہٰذا ایک اقدام یہ کیا گیا کہ نیشنل ازم اور جرمن اتحاد کی ہر آواز کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔

برطانیہ اور تُرکی کے علاوہ، تمام یورپی طاقتوں نے (بشمول آسٹریا، رُوس اور پرشیا) ایک Holy Alliance تشکیل دی، جس میں یہ معاہدہ کیا گیا کہ عیسائیت کی تعلیم ہماری راہنما ہوگی اور Congress of Vienna میں کیے گئے فیصلوں پر ہم عمل پیرا رہیں گے۔ Holy Alliance میں بھی Metternich نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک طرف یہ اتحاد عمل میں آیا تو دوسری طرف جرمن طلباء نے اپنی تنظیم سازی کی جسے Burschenschaft کہا گیا۔ انہوں نے اپنے نشان کے لیے جو رنگ منتخب کیے وہ سیاہ، سرخ اور سنہری تھے۔ یہی وہ رنگ تھے جو ان کے یونیفارم پر کاڑھے گئے تھے جب وہ نپولین سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ طلباء میں سخت بےچینی اور مایوسی پائی جاتی تھی کیونکہ وہ ایک متحد جمہوری جرمنی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ کچھ طلباء نے اس وجہ سے شدّت پسندی بھی اختیار کرلی۔

1819ء میں ایک طالبِ علم نے روس میں مقیم مصنف August von Kotzebue کا قتل کردیا کیونکہ اس نے طلباء کی تنظیموں کے خلاف لکھا تھا۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے Metternich نے تمام طلباء کی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ اور یونی ورسٹیز میں سخت کارروائیاں ہونے لگیں۔ پروفیسرز، شعراء اور طلباء کو اس دَور میں سخت سزائیں دی گئیں، اور جیل میں بھی ڈالا گیا۔ان میں جرمن زبان کے عظیم لکھاری بھائی Jakob اور Wilhelm Grimm بھی شامل ہیں جن کی کہانیاں آج بھی مشہور ہیں۔ اسی طرح Friedrich List کو بھی جلا وطن کر دیا گیا۔ وہ معیشت دان اور پروفیسر تھے اور Wurttemberg کی صوبائی پارلیمان میں جمہوری بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ List نے جرمنی میں custom کو ختم کرنے کی تحریک چلائی تاکہ تجارت میں آسانیاں پیدا ہوں۔ جب ان پر بھی کارروائی شروع ہوئی تو انہوں نے امریکا میں جلا وطنی قبول کرلی اور وہاں کی انڈسٹریل ترقی کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ جب ان کی وطن واپسی ہوئی تو انہی کی کوششوں سے جرمنی میں پہلی ریل کی پٹری Leipzig اور Dresden کے درمیان بچھی۔

Industrialization کی ابتدا بھی اب ہو چکی تھی۔ بڑی بڑی فیکٹریوں میں کام ہونے لگے تھے لیکن ملازمین کے حقوق کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ وہ کلیۃً مالکان کے رحم و کرم پر تھے۔ اسی طرح سیاسی آزادی پر شدید قدغن کے باعث شہر شہر میں عوام متحد ہو رہے تھے۔ انہی دنوں میں فرانس میں دوسری مرتبہ انقلاب آیا اور بادشاہت بارِ دگر معطل کر دی گئی اور جمہور اپنا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ (جاری ہے)

حوالہ جات:

Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin

Schlaglichter der deutschen Geschichte, Helmut M. Müller, bpb, Brockhaus 2002

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 42)

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • تاریخ جرمنی (چھبیسویں قسط)

  • تاریخ جرمنی

  • تاریخ جرمنی (تئیسویں قسط)