دشتِ طلب میں جا بجا، بادلوں کے ہیں دَل پڑے
کاش کسی کے دل سے تو چشمۂ فیض اُبل پڑے
بے آسراؤں کے لئے کوئی تو اَشکبار ہو
پیاس بجھے غریب کی تشنہ لبوں کو کَل پڑے
بادِ سموم سے چمن، دَردوں دُکھوں سے لد گیا
آہِ فقیر سے مرے اَشک اُبل اُبل پڑے
چشمِ حزیں کے پار اُدھر۔ دردِ نہاں کی جھیل پر
کھلتے ہیں کیوں کسے خبر، حسرتوں کے کنول پڑے
سود و زیاں سرور و غم، روشنیوں کے زیر و بم
آس بجھے تو یاس کے دیپ کی لو اُچھل پڑے
چاند نے پی ہوئی تھی رات، ڈول رہی تھی کائنات
نور کی مے اُتر رہی تھی، عرش سے جیسے طَلْ پڑے
بن گئی بزم ِشش جہات میکدۂ تجلیات
دَیر و حرم کو چھوڑ کر رند نکل نکل پڑے
صبر کا درس ہو چکا، اب ذرا حالِ دل سنا
کہتے ہیں تجھ کو ناصحا، چَین نہ ایک پل پڑے
آنکھ میں پھانس کی طرح ہجر کی شب اَٹک گئی
اے مرے آفتاب آ۔ رات ٹلے تو کَل پڑے
کون رہِ فراق سے لوٹ کے پھر نہ آ سکا
کس کے نقوشِ منتظر، رہ گئے بے محل پڑے
راہ خدا میں منزلِ مرگ پہ سب مچل گئے
ہم بھی رُکے رُکے سے تھے، اِذن ہوا تو چل پڑے

(کلام طاہر صفحہ 53)

متعلقہ مضمون

  • آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں

  • طائر کے بعد اُس کانشیمن اُداس ہے

  • وقت کم ہے، بہت ہیں کام، چلو

  • تم چلے آئے مَیں نے جو آواز دی