اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ایک عبد کے طور پر زندگی گزارتے ہوئے قرب الٰہی کی سب راہوں کی پیروی کرتا رہے تاکہ جب اس دارالعمل سے دارالجزاء کی طرف منتقل ہو تو اپنے مقصد حیات میں کامیاب قرار پائے اور رضائے الٰہی کی ابدی جنّت میں داخل ہو سکے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کےلئے خداتعالیٰ نے جو ذرائع اور وسائل انسان کو عطا فرمائے ہیں ان میں سے ایک اہم ذریعہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔
دینی ضروریات کی خاطر راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرنے کا مضمون قرآنِ مجید میں بہت کثرت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس کی تاکید فرمائی اور یہ وعدہ دیا ہے کہ عالم الغیب خدا تمہاری ہر مالی قربانی کو خوب دیکھنے والا اور جاننے والا ہے اور وہ وہاب خدا نیکی کی جزا بےحساب دیتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کو جہاد قرار دیتے ہوئے تجارت کے رنگ میں یوں بیان فرمایا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ۞ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَتُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَاَنۡفُسِکُمۡؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۞ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَیُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۞ وَاُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَاؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتۡحٌ قَرِیۡبٌؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (الصف:11۔14)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی؟ تم (جو) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک دوسری (بشارت بھی) جسے تم بہت چاہتے ہو۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب کی فتح ہے۔ پس تو مومنوں کو خوشخبری دے دے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے راہ خدا میں خرچ کرنے کی برکات کا بڑی جامعیت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ اسی مضمون کا ذکر ایک دوسری آیت کریمہ میں بھی ہے جس میں فرمایا: اِنَّ اللہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَاَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ۔ (سورۃ التوبۃ:112)
یعنی یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں تا کہ اس کے بدلہ میں اُنہیں جنت ملے۔
جس انسان کو صادق الوعد خدا کی طرف سے جیتے جی جنّت کی بشارت مل جائے وہ یقیناً اپنی منزل کو پا گیا۔
ہمارے محبوب آقا حضرت خاتم الانبیاء محمدﷺ نے بھی مالی قربانیوں کے موضوع پر اپنی امّت کی بےنظیر راہنمائی فرمائی ہے۔ ایک حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ’’اے ابن آدم! تو دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کر، اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر خرچ کرے گا‘‘۔ (مسلم کتاب الزکاۃ حدیث نمبر 2308 باب الحث علی النفقۃ و تبشیر المنفق بالخلف)
نیز فرمایا ’’قابل رشک ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور پھر اس مال کو اس کے برمحل خرچ کرنے کی بھی غیر معمولی توفیق اور ہمت بخشی‘‘۔
(بخاری کتاب الزکاۃ باب انفاق المال فی حقہ)
اسی طرح فرمایا ’’اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا۔ اپنے روپوں کی تھیلی کا منہ بخل کی وجہ سے بند کرکے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کرو‘‘۔ (بخاری کتاب الزکاۃ باب التحریص علی الصدقۃ و الشفاعۃ فیھا ایضا باب الصدقۃ فیما استطاع)
قرآن مجید اور احادیث سے ملنے والی یہ راہنمائی اس حقیقت کو خوب آشکار کرتی ہےکہ دین کی ضروریات کے لئے مالی قربانی قرب الٰہی اور رضائے الٰہی پانے کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ ہے۔ ان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں ایک طرف تو قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا پیار نصیب ہوتا ہے تو دوسری طرف رحیم و کریم خدا اسی دنیا میں ایسے مخلص بندے کو نوازنا شروع کر دیتا ہے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود نے اپنی تحریرات اور ملفوظات میں انفاق فی سبیل اللہ کے موضوع پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بار بار اپنے ماننے والوں کو اس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے آگاہ فرماتے ہوئے اس راہ میں آگے سے آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبّت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔ لیکن جو شخص مال سے محبّت کرکے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ497۔498)
نیز فرماتے ہیں:
’’اصل رازق خداتعالیٰ ہے۔ وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے میں اس کے لئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں۔ پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خداتعالیٰ پر بھروسہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 360)
انسان بالطبع نمونہ کا محتاج ہے اور دوسروں کے نیک نمونوں سے اس کے دل میں بھی نیکی کی تمنائیں بیدار ہوتی اور اسے بھی اسی رنگ میں رنگین ہونے پر مستعد کرتی ہیں۔ رسول پاکﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ وہ شخص حقیقت میں بہت ہی سعادت مند ہے جو دوسروں کے نیک نمونوں سے نصیحت پکڑتا ہے۔ اس پر حکمت اصول کی روشنی میں مالی قربانیوں کے چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی صحابہ کرام نے مالی تحریکات پر لبیک کہتے ہوئے عظیم الشان قربانیاں کیں جن میں سے بعض کا حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں بھی ذکر کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’مَیں اپنی جماعت کے محبّت اور اخلاص پر تعجّب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیرالدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روز مزدوری کرتے ہیں۔ سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجّب ہے کہ وہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہوجائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا۔ مگر لِلّہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا‘‘۔
(ضمیمہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 313۔ 314)
اسی طرح اکتوبر 1899ء میں اپنے اشتہار بعنوان ‘‘جلسہ الوداع’’ میں وفد نصیبین کے اخراجات کے متعلق صحابہ کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس روپے دئیے ہیں۔ میاں جمال الدین کشمیر ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیرالدین نے پچاس روپے دئیے ہیں۔ ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکرکی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو دنیا پرمقدّم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ166)
اسی طرح بالکل ابتدائی زمانہ کی بات ہے حضرت مسیح موعودکو ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت تھی۔ آپ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ جو اتفاق سے اس وقت قادیان آئے ہوئے تھے، سے فرمایا کہ ضرورت فوری ہے۔ کیا ممکن ہے کہ آپ کی جماعت اس ضرورت کو پورا کرسکے؟ حضرت منشی صاحبؓ نے حامی بھر لی اور سیدھے کپورتھلہ اپنے گھر گئے۔ اپنی بیوی کی رضامندی سے زیور بیچ کر فوری طور پر مطلوبہ رقم لا کر حضورؑ کی خدمت میں رقم پیش کر دی۔ چند روز بعد حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ ملنے آئے اور حضورؑ نے کپورتھلہ جماعت کا شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے بہت بروقت مدد کی۔ اس پر یہ راز کھلا کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے تو جماعت کے کسی دوست سے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کو مالی خدمت کے اس نادر موقع سے محرومی کا اس قدر شدید قلق تھا کہ آپ کافی عرصہ تک حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ سے ناراض رہے۔ کیا شان ہے اس ناراضگی کی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ سارا ثواب آپ نے ہی لے لیا اور ہمیں اس ثواب میں حصہ دار نہ بنایا۔ (اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 98،97)
حضرت میاں شادی خان صاحبؓ سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ تنگدست تھے لیکن دل کے بادشاہ تھے۔ ایک موقع پر اپنے گھر کا سارا سازوسامان فروخت کرکے ڈیڑھ سو روپیہ کے بعد مزید دو سو روپے حضور کی خدمت میں پیش کر دئے۔ اس زمانہ کے لحاظ سے یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ حضرت مسیح موعود نے ایک مجلس میں اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں شادی خان نے تو اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔ اور ‘‘دَرحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکرؓ نے کیا تھا’’۔ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ315) میاں شادی خانؓ نے سنا تو سیدھے گھر گئے۔ ہر طرف نظر دوڑائی۔ سارا گھر خالی ہو چکا تھا صرف چند چارپائیاں باقی تھیں۔ فوری طور پر ان سب کو بھی فروخت کر ڈالا اور ساری رقم لا کر حضور کے قدموں میں ڈال دی اور حضور کے منہ سے نکلی ہوئی بات لفظاً لفظاً پوری کر دی۔ اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس فدائی خادم کو کیسے نوازا۔ ان کی وفات ہوئی تو ان کی آخری آرام گاہ بہشتی مقبرہ میں ایسی جگہ بنی جو حضرت مسیح موعود کے مزار مبارک سے چند گز کے فاصلہ پر تھی اور بعدازاں مقدّس چار دیواری کے اندر آ گئی۔
حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں مالی قربانیوں کا جذبہ ایسا راسخ ہو چکا تھا کہ اس کے نئے سے نئے انداز اختیار فرماتے۔ حضرت سائیں دیوان شاہ صاحبؓ اپنے بار بار قادیان آنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:
“مَیں چونکہ غریب ہوں۔ چندہ تو دے نہیں سکتا۔ قادیان جاتا ہوں تاکہ مہمان خانہ کی چارپائیاں بُن آؤں اور میرے سر سے چندہ اُتر جائے’’۔
(الفضل انٹرنیشنل27؍جنوری 2012ءصفحہ6)
مال ہو تو اس کی طلب اور خواہش کے باوجود دینی ضروریات کو مقدّم کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا یقیناً بہت ہمت کی بات ہے اور ثواب عظیم کا موجب۔ لیکن مالی تنگی کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ کرنا بلکہ اپنا سب کچھ پیش کر دینا واقعی صبر اور قربانی کا انتہائی بلند مقام ہے۔ حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ امرتسر میں تھے کہ حضور کی طرف سے چندہ لینے والے پہنچ گئے۔ نقد رقم تو موجود نہ تھی۔ آپ کے پاس کنستر میں اس وقت صرف آدھ سیر کے قریب آٹا تھا۔ آپ نے وہی پیش کر دیا اور وہ ساری رات آپ اور آپ کے اہل و عیال نے فاقہ سے گزار دی۔
(الفضل 18 جنوری 1977ء)
جماعت احمدیہ میں بعض ایسی شخصیّات بھی گزری ہیں جن کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ اب انہیں مزید مالی قربانیوں کی ضرورت نہیں۔ انہی میں سےایک بزرگ شخصیت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ بھی تھے جن کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:
’’حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کی قربانیاں اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت مسیح موعود نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لیے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور ا س میں روپیہ پیسہ کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ لنگر خانہ دو جگہ پر ہوگیا ہے۔ ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں اس کے علاوہ اور مقدّمہ پر خرچ ہو رہا ہے لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں۔ جب حضرت صاحب کی یہ تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اس دن ان کو تنخواہ قریباً 450روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ رقم گھر کی ضرورت کے لیے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خداکا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لیے ضرورت ہے تو پھر اَور کس کے لیے رکھ سکتا ہوں؟‘‘۔
(تقریر جلسہ سالانہ 27دسمبر1926ء انوارالعلوم جلد 9صفحہ نمبر403)
مالی قربانی کی عظمت کا معیار اس کی مقدار نہیں بلکہ وہ خلوص، جذبہ اور نیّت ہے جس سے وہ قربانی پیش کی جاتی ہے۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم ایڈووکیٹ سرگودھا نے ایک احمدی سقّہ کا یہ واقعہ بارہا بیان فرمایا کہ اس کا کام شہر کی نالیاں صاف کرنے والے کارکنان کے لئے اپنی مشک سے پانی ڈالنا تھا۔ اس کی ماہانہ آمد (اس زمانہ میں) صرف 32 روپے بنتی تھی۔ وہ اس آمد میں سے ہر ماہ 20 روپے بڑی باقاعدگی سے بطور چندہ ادا کرتا تھا اور باقی صرف 12 روپے میں اپنے خاندان کا گزارہ کرتا تھا۔ لا ریب قربانی کا یہ معیار بہت ہی قابل رشک ہے اور بہتوں کے لئے درس نصیحت ہے۔
عُشّاقِ اسلام و احمدیت کی یہ قربانیاں اور ان کی فدائیت کے یہ ایمان افروز نمونے ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی مالی قربانی کی ان راہوں پر پوری وفا کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا عارضی اورچند روزہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے ایک دن اس عارضی ٹھکانہ کو چھوڑ کر آخرت کا سفر اختیار کرنا ہے۔ سوچنے اور فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے سفر آخرت کے لئے کیا زادِ راہ اختیار کیا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کیا خوب فرمایا ہے:
یہ زر و مال تو دنیا ہی میں رہ جائیں گے
حشر کے روز جو کام آئے وہ زر پیدا کر
پس عقلمند اور کامیاب وہ شخص ہے جو اس فانی دولت کو راہ خدا میں قربان کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا کی ابدی اور لازوال دولت خرید لیتا ہے اور اس وسوسہ میں کبھی مبتلا نہیں ہوتا کہ مال خرچ کرنے سے دولت کم ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں:
ز بذلِ مال در راہش کسے مفلس نمی گردد
خدا خود مے شود ناصر اگر ہمت شود پیدا
خدائے رحمان و رحیم کی جنتِ نعیم کے ہر طلبگار کا فرض ہے کہ وہ صادق الوعد خدا کے وعدوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے مالی قربانیوں کے سب میدانوں میں اس شان سے آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے کہ اسی زندگی میں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری سن لے کہ
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ