ایک جرمن ڈاکٹر کرٹ ٹلٹاک (Dr Curt Tiltack) جماعت احمدیہ کے بارہ میں ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ مکرم چودھری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے انہیں ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ از حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مطالعہ کے لئے دی جس کی مدد سے انہوں نے خاصہ مواد جمع کرلیا۔ مزید راہنمائی اور وضاحت کے لئے ڈاکٹر ٹلٹاک نے یکم دسمبر 1952ء کو بذریعہ مکتوب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں چار سوالات بھجوائے۔ حضورؓ نے ان سوالات کے جواب میں ایک حقیقت افروز مکتوب تحریر فرمایا
جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
مکرمی! السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

آپ کا خط مورخہ یکم دسمبر 52ء ملا۔ آپ کے دریافت کردہ سوالات کے جواب مندرجہ ذیل ہیں۔

پہلا سوال۔ کیوں احمدیہ جماعت حقیقی اسلام ہے؟
جواب۔ احمدیہ جماعت کی نسبت جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی اسلام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اس امر کا مدعی ہے کہ اس کی تعلیم آخری تعلیم ہے۔ جو حصہ اجتہاد کے لئے چھوڑا گیا ہے اس میں ماہرین اسلام کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے اور جمہور اسلام کو بھی اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن وہ اجتہاد ایسے لوگوں پر نہ حُجّت ہے اور نہ ان کو پابند کرسکتا ہے جو اس اجتہاد سے متفق نہیں۔ ہر شخص کے سامنے ایسا مسئلہ آجائے گا اگر اس کی عقل اسےتسلیم کرے گی تو وہ مانے گا اگر عقل تسلیم نہیں کرے گی تو نہیں مانے گا۔ لیکن کچھ حصہ شریعت اسلام کا ایسا ہے جو بطور نص کے آیا ہے یعنی قرآن کریم یا رسول کریمﷺ کی حدیثوں میں اس کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ اور اس کے متعلق ترجمہ یا تشریح کا تو سوال پیدا ہوسکتا ہے اجتہاد کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسی تعلیم اسلامی نقطہ نگاہ سے غیرمتبدل ہے جو ایسی تعلیم کو نہیں مانتا اسے یہ تو حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ قرآن کا ترجمہ غلط کردیا گیا ہے جسے وہ لغت اور صَرف و نَحو کے قواعد سے ثابت کرسکتا ہے۔ لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ کہے کہ گو مفہوم لفظوں سے یہی نکلتا ہے مگر میں زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس میں فلاں فلاں تبدیلی پسند کرتا ہوں۔
اس تشریح سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کی اس تعلیم کے بموجب اب کوئی نیا مذہب نہیں آسکتا۔ کیونکہ جیسا کہ بتایا گیا ہے اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس کی تعلیم دائمی ہے۔ پس اگر کوئی فرقہ نیا پیدا ہوتا ہے جو پرانے فرقوں سے اختلاف رکھتا ہے اور اس کا اختلاف بہت نمایاں نظر آتا ہے تو پرانے عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان لوگوں نے اسلام سے باہر کوئی نیا مذہب نکالا ہے۔ اسی طرح غیرمسلم لوگوں کو بھی یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی نیا مذہب ہے۔ پس اس شبہ کو دور کرنے کے لئے یہ لکھا جاتا ہے کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ یعنی احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ جہاں وہ دوسرے فرقوں سے اختلاف کرتی ہے وہاں وہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ یہ اختلاف اسلام سے نہیں ہے بلکہ موجودہ فرقوں سے ہے۔ اسلام کی صحیح تشریح وہی ہے جو کہ احمدیت پیش کرتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اس کا دعویٰ کہاں تک سچ ہے سو اس سوال کا فیصلہ اسی طرح کیا جائے گا جس طرح ہر سچائی کا کیا جاتا ہے۔ یعنی ہر انسان کو خداتعالیٰ نے عقل دی ہے وہ اپنی عقل سے احمدیت کے دلائل کا موزانہ کرے گا اور پھر فیصلہ کرے گا۔ اگر احمدیت جو قرآن کی تشریح پیش کرتی ہے وہ قرآنِ کریم کی دوسری آیتوں کے مطابق ہے اور لغت عربی اور عربی گرامر دونوں اس کی تصدیق کرتی ہیں یا اسے جائز قرار دیتی ہیں اور عقل بھی اور ضمیر انسانی بھی انہی معنوں کی تصدیق کرتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ احمدیت والی تشریح ہی درست ہے دوسری تشریح غلط ہے۔ اور چونکہ وہ تشریح ہے کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے اس لئے اگر وہ تشریح درست ہے تو پھر احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور جو لوگ اس کے خلاف عقیدہ بیان کرتے ہیں وہ درحقیقت اسلام سے دور جاپڑے ہیں اور اپنے خیالات کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں۔
دوسرا سوال۔ احمدی لوگ ابراہیمؑ، موسیٰؑ، بدھؑ، زرتشتؑ اور مسیحؑ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
جواب۔ یہ سوال جو آپ نے کیا ہے یہ بھی اوپر والے سوال کا ایک حصہ ہے۔ اس سوال کے متعلق احمدیت جو تعلیم دیتی ہے وہ اس وقت کے مسلمانوں کے لئے عجوبہ ہے اور وہ اس تعلیم کی وجہ سے بھی احمدیوں کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ بتایا جائے گا یہ ان کی غلطی ہے۔ درحقیقت ان کا اپنا عقیدہ اسلام سے خارج ہے۔ جہاں تک ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کا سوال ہے ان کے متعلق سب مسلمان متفق ہیں کیونکہ ان تینوں نبیوں کا نام قرآنِ کریم میں آیا ہے اور ان کی نبوت کا اقرار کیاگیا ہے۔ حضرت مسیحؑ کے متعلق احمدیت کو غیراحمدی مسلمانوں سے اتنا اختلاف ہے کہ احمدی عقیدہ کے مطابق قرآنِ کریم سے ثابت ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں (سورہ مائدہ آیت 117 و آل عمران آیت 55 و نساء آیت 158) لیکن غیراحمدیوں کے نزدیک حضرت مسیحؑ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک زندہ ہیں۔ یہ عقیدہ عیسائیوں والا عقیدہ نہیں کیونکہ عیسائیوں کے نزدیک مسیحؑ صلیب پر چڑھائے گئے اور اس پر فوت ہوگئے اور پھر زندہ کئے گئے۔ مسلمان اس کو نہیں مانتے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب مسیح کو صلیب پر چڑھانے کے لئے یہودی اور گورنمنٹ کی پولیس پکڑنے کے لئے گئی تو خداتعالیٰ نے ان کو آسمان پر اُٹھا لیا اور یہودا اسکر یوطی کو یا کسی اور یہودی کو (اس میں ان کے اندر اختلاف ہے) مسیحؑ کی شکل دے دی گئی اور پولیس اور یہودیوں نے اس شخص کو مسیح سمجھ کر صلیب پر لٹکا دیا اور وہ اس پر مرگیا۔ احمدیہ عقیدہ یہ ہے کہ مسیحؑ صلیب پر لٹکایا گیا لیکن قرآنِ کریم کے رُو سے وہ صلیب پرمرا نہیں اور انجیل کے رُو سے وہ صلیب پر سے زندہ اُتار لیا گیا جیسا کہ صلیبی واقعات سے اور نیزہ مارنے کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ نیزہ مارنے پر سیال خون نکلا ہے۔ مردے میں سے خون نہیں نکلاکرتا۔ گو انجیل نے اس کو خون اور پانی کے لفظ سے بیان کیا ہے مگر خون اور پانی الگ الگ تو نکلا نہیں کرتے۔ دَرحقیقت سیال خون کو ہی خون اور پانی کے لفظوں سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ہمیشہ زندوں میں سے نکلا کرتا ہے۔ اسی طرح خود مسیحؑ نے اپنے متعلق جو پیشگوئیاں کی ہیں ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہی صلیب سے اتارا گیا اور زندہ ہی قبر میں رکھا گیا۔ کیونکہ اس نے اپنے صلیب کے واقعہ کو یونسؑ نبی کے مچھلی کے پیٹ میں جانے والے واقعہ کے مشابہہ قرار دیا ہے۔ اور یونسؑ نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ ہی گیا تھا اور زندہ ہی نکلا تھا۔ پس اس پیشگوئی کے مطابق مسیحؑ بھی زندہ ہی قبر میں داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا۔ اسی طرح صاف لکھا ہے کہ مسیحؑ نے تھوما کو کہا کہ میرے زخموں میں انگلیاں ڈال۔ مسیحیوں کے عقیدہ کے مطابق مسیح کا جسم تو انسان کا جسم تھا وہ آسمان پر نہیں گیا نہ وہ آسمان سے آیا تھا اور صلیب جسم کو دی گئی تھی نہ کہ روح کو۔ پس زخموں کا موجود ہونا اور تھوما سے اس میں انگلیاں ڈلوانا بتاتا ہے کہ مسیح اسی حیثیت سے دنیا میں موجود تھا جس حیثیت سے وہ صلیب سے پہلے تھا۔ صرف صلیب سے زخم اس پر آگئے تھے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ مسیحؑ کہتا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں۔ لیکن صلیب سے پہلے تو مسیحؑ کو گمشدہ بھیڑوں تک جانے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا۔ پس یقیناً وہ صلیب سےزندہ اتارا گیا اور پھر گمشدہ بھیڑوں کی طرف یعنی ایران، افغانستان اور کشمیر کی طرف گیا جیسا کہ تاریخ سے ثابت بھی ہے۔ اس کے متعلق آپ بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ پڑھیں یا سلسلہ کے مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس کی کتاب Where Did Jesus Die؟دیکھیں۔

بدھ اور زرتشت کے متعلق دوسرے مسلمانوں کا خیال یہی ہے کہ وہ جھوٹے تھے مگر احمدیت کہتی ہے کہ وہ بھی سچے نبی تھے کیونکہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ (سورہ فاطر:24) کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں جس میں نبی نہ آئے ہوں۔ یہی عقیدہ عقل کے مطابق ہے اور جب قرآن مانتا ہے کہ کئی قوموں کے نبیوں کا اس نے ذکر نہیں کیا لیکن آئے وہ ضرور ہیں۔ اور جب ہمیں نظرآتا ہے کہ مختلف ملکوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے اور باوجود اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کے اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ نہیں کیا اور بڑی بڑی جماعتیں ان کے ذریعہ قائم ہوئی ہیں حالانکہ بائیبل اور قرآن کے رُو سے جھوٹے نبی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ تباہ کئے جاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ نبی تھے۔اور اگر ہم ان کو نبی نہ مانیں تو قرآنِ کریم کا یہ دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تھے۔
غیر احمدی کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے نام نہیں لیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے قرآن نے نام نہیں لیا اور نہ وہ دنیا کے سارے نبیوں کا نام لے سکتا تھا۔ وہ کوئی Statistics کی کتاب نہیں ہے۔ لیکن جب وہ کہتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو جو لوگ ان قوموں میں ایسے پائے جاتے ہیں جن پر نبیوں کے حالات صادق آتے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کی نبوت کا اقرار نہ کریں۔
تیسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ مذاہب کے لئے احمدیت کیا اہمیت رکھتی ہے اور سوشل لحاظ سے پولیٹیکل لحاظ سے وہ بنی نوع انسان کو کیا فائدہ بخشتی ہے؟
اس سوال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے وہ True اسلام ہے اس لئے سوشل اور پولیٹیکل Welfare کے لحاظ سے جو اسلام دنیا کو فائدہ بخش سکتا ہے وہی فائدہ احمدیت دنیا کو بخشتی ہے۔ Practically یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام کی تعلیم ان دونوں امور کے لئے ایک Dead Letter کے طور پر ہوچکی تھی۔ مسلمان ایک لمبے عرصہ کی کامیابیوں کے بعد مختلف قسم کی خرابیوں میں مبتلا ہوگئے تھے اور چونکہ وہ مذہبی آدمی تھے ان کی کانشنس ان کو ملزم کرتی رہتی تھی اور کانشنس کے الزام کو انسان زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے ان کے لئے دو ہی رستے کھلے رہ گئے تھے۔ یاتو وہ اپنی بداعمالیوں کو چھوڑ کر صحیح اسلامی تعلیم کی طرف واپس آجاتے تب ان کی کانشنس ان کو الزام دنیا چھوڑ دیتی مگر وہ اتنے سست ہوچکے تھے اور صحیح عمل سے اتنے دور ہوچکے تھے کہ وہ اس بات کو ناممکن پاتے تھے۔ دوسرا رستہ ان کے لئے یہ کھلا تھا کہ وہ مذہب کی تشریح ایسے رنگ میں کردیں کہ وہ ان کی بداعمالیوں کو جائز قرار دے دے اور ان کی موجودہ حالت کو عین مذہبی حالت بنا دے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پھر بھی وہ ضمیر کی ملامت سے بچ جاتے تھے۔ یہ رستہ زیادہ آسان تھا انہوں نے اس رستہ کو قبول کرلیا۔ احمدیت نے آکر پھر صحیح اسلامی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کردی اور ضمیر کو ان قیدوں سے آزاد کر دیا جو کہ گزشتہ صدیوں میں اس کے اوپر لگا دی گئی تھیں۔ اب وہ پھر زندہ ہوگی اور ادھر اسلام کی تعلیم زندہ ہوگی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ضمیر اور عمل کی وہ جدوجہد جو قوموں کو ہمیشہ راہِ راست پر قائم رکھتی ہے احمدیت کی وجہ سے پھر جاری ہوجائے گی اور چونکہ اسلامی تعلیم سوشل اور پولیٹیکل Welfare Of The Human Race کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے لازماً ایک احمدی اس کی نقل کرنے پر مجبور ہوگا اور اسے دیکھ کر دوسرے مسلمانوں کا بھی ایک حصہ۔ پس دنیا میں وہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم پھر قائم ہوجائے گی جس کو اسلام دنیا کے فائدہ کے لئے لایا تھا۔ مثلاً موٹی مثال یہ لیجئے کہ احمدیت کے نزدیک قرآنی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو کسی عقیدہ کے ماننے پر مجبور نہ کیا جائے اور ہر انسان کو کوئی بات اپنے ماں باپ سے سن کر نہیں ماننی چاہئے بلکہ دلیل کے ذریعہ ماننی چاہیے۔ جب مسلمانوں کی قوت عملی مرگئی اور تبلیغ کی مشکلات برداشت کرنے کی طاقت ان میں نہ رہی تو انہوں نے اس اسلامی تعلیم کو بدل کر یہ تعلیم بنالی کہ غیرمسلم کو زبردستی مسلمان بنانا جائز ہے اور اگر کوئی مسلمان اپنا عقیدہ چھوڑ دے تو اس کو قتل کر دینا ضروری ہے۔ اس طرح انہوں نے سمجھا کہ ایک طرف تو اسلام بالکل محفوظ ہوگیا اب اس میں سے کوئی شخص باہر نہیں جائے گا۔ دوسری طرف بغیر تبلیغ کی مشکلات برداشت کرنے کے ہم کبھی کبھار غیر مسلموں کو مسلمان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اس سے ایک طرف تو مسلمانوں کا مذہب عقل اور محبّت کا مذہب نہ رہا۔ بلکہ ڈر اور بیوقوفی کا مذہب ہوگیا۔ دوسری طرف غیرقوموں اور مسلمان کے تعلقات بگڑگئے۔ اب احمدیت نے اس تعلیم کو درست کیا ہے۔ جب غیر قوموں کو معلوم ہوگا کہ اسلام تبلیغ اور دلائل کے ذریعہ سے سچائی کو پیش کرتا ہے اور تمام اقوام کو اپنا بھائی قرار دیتا ہے تو یقیناً پولیٹیکل تعلقات اور سوشل تعلقات اچھے ہوجائیں گے اور تلوار سے مسلمان بنانے کی بجائے مسلمان تبلیغی جدوجہد کرے گا اور اس میں قربانی اور ایثار اور صبر کا مادہ پیدا ہوگا اور ہر مسلمان جب یہ سمجھے گا کہ میں آزادی سے اپنے متعلق فیصلہ کرسکتا ہوں تو جہاں وہ غیرمذاہب سے متعلق تحقیقات کرے گا وہاں وہ اپنے مذہب کے متعلق بھی تحقیقات کرے گا اور آئندہ وہ ورثہ کا مسلمان نہیں ہوگا بلکہ ایک محقق کی حیثیت پیدا کرلے گا اور نہ صرف اس کا اپنا مذہب مضبوط ہوگا بلکہ وہ انسانی سوسائٹی کا نہایت مفید اور کارآمد وجود ہوجائے گا۔
میں اس مضمون کے متعلق زیادہ تفصیل سے نہیں لکھتا اس لئے کہ مَیں بتا چکا ہوں کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ اس بارہ میں جو اسلام کی تعلیم ہے وہی احمدیت کی تعلیم ہے۔ اگر آپ نے میری کتاب ‘‘احمدیت’’ دیکھی ہے تو آپ ان دونوں امور کے متعلق جو اسلام کی تعلیم اس میں لکھی ہے اسے دیکھ لیں۔ گو مختصر ہے مگر بہرحال ان دونوں مضامین پروہ روشنی ڈالتی ہے اور جو روشنی وہ ڈالتی ہے وہی فائدہ احمدیت پولیٹیکل اور سوشل لحاظ سے دنیا کو پہنچائے گی۔
چوتھے سوال کا جواب آپ کو بعد میں بھجوایا جائے گا۔
چونکہ یہ پہلا خط ہے جو آپ کی طرف سے ہمیں موصول ہوا اس لئے ہم پوری طرح یہ نہیں سمجھ سکتے کہ حقیقتاً آپ کے سوالات کی بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ اس لئے اس خط کو پڑھنے کے بعد آپ دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کریں اور جو کچھ آپ کے دل میں سوالات پیدا ہوں وہ ہمیں تفصیل سے لکھیں۔ ہم آپ کے ہر سوال کا خوشی سے جواب دینے کے لئے تیار ہیں’’۔
(تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 138 تا 145)

(اخبار احمدیہ جرمنی جون 2024ء صفحہ 35 تا 37)

متعلقہ مضمون

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • آدھی صدی کا سفر

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

  • نُورِ ہدایت