سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ اکتوبر 2017ء کا متن

تشہّد و تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے مندرجہ ذیل تلاوت فرمائی:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الاحزاب:41) اس آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ محمدﷺ تمہارے جیسے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
پاکستان میں سیاستدان بھی اور علماء بھی وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی بہانے سے احمدیوں کے خلاف اپنا غبار نکالتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں قوم کو اپنے پیچھے چلانے اور اپنا ہم نوا بنانے کا اور شہرت حاصل کرنے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ اور سب سے بڑا ہتھیار جو مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے وہ ختم نبوت کا ہتھیار ہے۔ پس جب بھی کسی سیاسی پارٹی کی ساکھ خراب ہو رہی ہو، جب بھی کسی سیاستدان کی پسندیدگی کا گراف گر رہا ہو یا معیار کم ہو رہا ہو، جب بھی نام نہاد مذہبی تنظیمیں سیاسی شہرت حاصل کرنا چاہیں، دوسری تنظیم، دوسری سیاسی پارٹی یا دوسرے سیاستدان کو نیچا دکھانا چاہیں تو احمدیوں کے ساتھ ان کے تعلق جوڑ کر یہ کہتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنا بڑا ظلم ہونے لگا ہے کہ غیرملکی طاقتوں کے زیرِ اثر یہ لوگ احمدیوں کو مین سٹریم (Main Stream) مسلمانوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں جبکہ احمدی ان کے خیال میں ختم نبوت کے منکر ہیں۔ یہ نام نہاد اسلام کا درد رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم ناموس رسالت پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور کبھی ایسا ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ احمدیوں کو مسلمان کہا جائے اور پھر جب یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی خاطر اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے اس پر دوسری پارٹی جو چاہے حکومت بھی کر رہی ہو اس کے نمائندے فوراً اسمبلی میں کھڑے ہو کر بیان دیں گے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ احمدیوں کو کوئی حق ملے بلکہ جو ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے جو تھوڑا بہت حق ہے چاہے وہ تیسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے ہی ہے، جو تھوڑے حقوق ملے ہوئے ہیں وہ یہ نعرہ لگائیں گے کہ وہ بھی لے لو۔ ہر ایک کے اپنے سیاسی ایجنڈے ہیں۔ ہر ایک کے اپنے ذاتی مفادات ہیں۔ لیکن اس میں تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی احمدیوں کو زبردستی گھسیٹا جاتا ہے کیونکہ یہ بڑا آسان معاملہ ہے۔ غیر حکومتی ارکان اسمبلی بھی اور حکومتی ارکان اسمبلی بھی بڑھ بڑھ کر احمدیوں کے خلاف بولتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم کے الفاظ میں ردّ و بدل جو سیاسی پارٹی یا حکومتی پارٹی اپنے مفادات کے لئے کر رہی تھی اس کے سلسلہ میں یہی کچھ ہمارے دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں پچھلے دنوں میں بڑا شور مچا رہا اور میڈیا کے ذریعہ سے یہ سب کچھ دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس لئے اس بارے میں تو زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہم نے کسی غیر ملکی طاقت سے نہ ہی کبھی یہ کہا ہے کہ ہمیں پاکستانی اسمبلی کے آئین میں ترمیم کروا کر قانون اور آئین کی نظر میں مسلمان بنوایا جائے۔ نہ ہی ہم نے کسی پاکستانی حکومت سے کبھی اس چیز کی بھیک مانگی ہے۔ نہ ہی ہمیں کسی اسمبلی یا حکومت سے مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولﷺ نے مسلمان کہا ہے۔ ہم کلمہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھنے والے ہیں۔ ہم تمام ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم قرآنِ کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ ہم اس بات پر علی وجہ البصیرت قائم ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہﷺ خاتم النبیین ہیں بلکہ حضرت مسیح موعودنے صاف صاف اور واضح لکھا ہے۔ متعدد جگہ اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے مَیں اسے بےدین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ وہ نہ احمدی ہے، نہ مسلمان ہے۔ پس ہمارے خلاف یہ شورش پیدا کی جاتی ہے اور ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں اور نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ نہایت گھٹیا اور گھناؤنا الزام ہے جو ہم پر لگایا جاتا ہے۔ یہ الزام حضرت مسیح موعودکے دعویٰ کے وقت سے جماعت احمدیہ پہ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پہ لگایا جا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً جب بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے ہوں جیسا کہ مَیں نے کہا ان لوگوں کو اس بارہ میں وبال اٹھتا رہتا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ایک دفعہ اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا کہ یہ الزام جو ہم پر لگاتے ہیں اس کے جھوٹا ہونے کے لئے جب ہم کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر کس طرح ہو سکتے ہیں جبکہ ہم قرآنِ کریم پڑھتے ہیں اور قرآنِ کریم پر یقین بھی رکھتے ہیں، ایمان بھی لاتے ہیں اور قرآنِ کریم آپﷺ کو خاتم النبیین کہتا ہے تو اس پر غیر احمدی علماء یہ اعتراض کر دیتے ہیں اور انہوں نے عوام کو بھی یہی پڑھایا ہوا ہے اور یہ اعتراض آج بھی کیا جاتا ہے بلکہ آپس کے رابطوں کی وجہ سے، میڈیا کی وجہ سے دوسرے ملکوں کے علماء بھی ان پاکستانی نام نہاد علماء کے زیر اثر یہ کہہ جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ احمدی تو قرآنِ کریم کو بھی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کے الہامات کو قرآنِ کریم سے افضل سمجھتے ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمودؓ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4 نومبر 1955ء جلد 36 صفحہ 222-223)
چنانچہ کئی عرب جب حقیقت جان کر بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہوتے ہیں تو وہ یہی بتاتے ہیں کہ جب ہم اپنے علماء سے پوچھتے ہیں کہ جماعت کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے تو وہ اسی قسم کی باتیں ہمیں بتاتے ہیں کہ احمدی قرآنِ کریم کو نہیں مانتے۔ انہوں نے اپنا ایک علیحدہ قرآن اور کتاب بنائی ہوئی ہے۔ یہ آنحضرتﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ مرزا صاحب کو آخری نبی مانتے ہیں۔ ان کا حج مختلف ہے۔ یہ حج نہیں کرتے۔ ان کا قبلہ اور ہے۔ خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھتے۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ان نام نہاد علماء کا پول کھل جاتا ہے اور یہی غیراحمدی مولوی اپنے جھوٹ کی وجہ سے، احمدیوں پر اپنے جھوٹے الزامات لگانے کی وجہ سے بہت سوں کے احمدیت کے قبول کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ پس یہ مولوی بھی جھوٹ بول کے ایک لحاظ سے ہماری تبلیغ بھی کر رہے ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم قرآنِ کریم کو نہ مانیں اور آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین یقین نہ کریں جبکہ خود حضرت مسیح موعودکے الہامات قرآنِ کریم کو خداتعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں اور سب خیر کا سرچشمہ اسے سمجھتے ہیں اور آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآنِ کریم کے بارہ میں آپ کا ایک الہام ہے کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآن (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 57) کہ تمام بھلائی قرآنِ کریم میں ہے۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا جو قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13)
یہ کہیں نہیں فرمایا کہ میرے الہامات کو عزت دو۔ آپ کے الہامات قرآنِ کریم کے خادم ہیں۔ ان کی کوئی علیحدہ اور مستقل حیثیت نہیں ہے۔ جو بھی بھلائیاں ہم نے تلاش کرنی ہیں، جو بھی ہدایت ہم نے تلاش کرنی ہے، معاشرے کے کسی معاملے کے بارے میں ہم نے ہدایت لینی ہے تو وہ ہم قرآنِ کریم سے ہی لیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کے بہت سے الہامات ان کی وضاحت اور تشریح بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودکی آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں بےشمار تحریرات ہیں اور ا س کے علاوہ یہ ایک الہام بھی ہے جس میں خاتم النبیین کا لفظ بھی آتا ہے۔ الہام یہ ہے کہ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیّٖن کہ درود بھیج محمد (ﷺ) پر اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے۔ﷺ۔’’
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ597 حاشیہ)
اور یہ الہام مختلف وقتوں میں دو تین جگہ ہوا ہے۔ پھر یہ بھی الہام ہے کہ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ کہ ہر ایک برکت محمدﷺ کی طرف سے ہے۔ (حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 73)
پھر آپ اپنی کتاب ’’تجلیاتِ الٰہیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ‘‘اگر مَیں آنحضرتﷺ کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ (ﷺ) کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں’’۔
(تجلیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411-412)
پس حضرت مسیح موعودبھی آنحضرتﷺ کے تابع ہیں اور آپ کے الہامات بھی قرآنِ کریم کے تابع اور اس کی وضاحتیں ہیں۔ اگر ہم حضرت مسیح موعودکے الہامات کو نعوذ باللہ قرآنِ کریم سے افضل سمجھتے تو ہم جو آجکل دنیا میں خرچ کرکے اور اپنے پر مالی قربانیاں وارد کرکے قرآنِ کریم کے تراجم شائع کر رہے ہیں ان کے بجائے حضرت مسیح موعودکے الہامات کی اشاعت کرتے۔ اس وقت تک پچہتر(75) زبانوں میں قرآنِ کریم کے مکمل تراجم شائع ہو چکے ہیں اور کچھ زبانوں میں ابھی زیر کارروائی ہیں۔ ترجمہ ہو رہے ہیں۔ انشاء اللہ جلد شائع ہو جائیں گے۔ 111 زبانوں میں منتخب قرآنی آیات کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ بڑی بڑی اسلامی حکومتیں بتائیں اور وہ جو بڑی پیسے والی مذہبی تنظیمیں ہیں وہ تو ذرا بتائیں کہ انہوں نے کتنی زبانوں میں قرآنِ کریم کے ترجمہ کی اشاعت کی ہے؟
خاتم النبیین کے حقیقی معنی اور روح کو بھی ہم احمدی ہی سمجھتے ہیں اور آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اعلان کی اشاعت بھی دنیا کے مختلف ممالک میں ان کی زبانوں میں احمدی ہی کر رہے ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی نعوذ باللہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔ حضرت مسیح موعودنے ہمیں ختم نبوت کی حقیقت کا وہ فہم اور ادراک عطا فرمایا ہے جس کے قریب بھی یہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو ختم نبوت کا عَلَم اٹھانے کے، جھنڈا اٹھانے کے دعویدار ہیں۔ آپعلیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ کیا ہم رسول کریمﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں یا نہیں؟ ایک مجلس میں فرمایا:
’’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّتِ یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اُس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اُس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرتِ تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ بجز اُن لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں’’۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 342۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ختم نبوت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ‘‘ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا جو خاتم المومنین، خاتم العارفین اور خاتم النبیین ہے اور اسی طرح پر وہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔ رسول اللہﷺ جو خاتم النبیین ہیں اور آپ پر نبوت ختم ہو گئی تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کر دے’’۔ (کسی کو مار دیا۔) ‘‘ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ رسول اللہﷺ پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپ پر کمالات نبوت ختم ہوگئے۔ یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدم سے لے کر مسیح ابن مریم تک نبیوں کو دئیے گئے تھے کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی، وہ سب کے سب آنحضرتﷺ میں جمع کر دئیے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپ خاتم النبیین ٹھہرے۔ اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات’’ (ساری تعلیمات جو ہیں) ‘‘وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں’’ (جو پہلی شریعتوں میں تھے) ‘‘وہ قرآن شریف پر آ کر ختم ہوگئے اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھہرا’’۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 341-342۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے وہ حقیقت جس سے ہمارے مخالف لاعلم ہیں اور جن علماء کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ انہیں اپنی گرفت سے باہر نکلنے ہی نہیں دینا چاہتے کہ اگر یہ حقیقت ان کے پیچھے چلنے والوں کو پتا چل جائے تو پھر انہوں نے مذہب کو جو کاروبار بنایا ہوا ہے وہ کاروبار ان کا نہیں چل سکے گا۔
خاتم النبیین کے معنی ایک جگہ آپ ؑنے بیان فرمائے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:
‘‘ختمِ نبوت کے متعلق مَیں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتم النبیین کے بڑے معنی یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدمعلیہ السلام سے لے کر آنحضرتﷺ پر ختم کیا۔ یہ موٹے اور ظاہر معنی ہیں۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ کمالاتِ نبوت کا دائرہ آنحضرتﷺ پر ختم ہو گیا۔ یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا اور نبوت ختم ہوگئی’’۔ (یعنی قرآنِ کریم کی تعلیم میں وہ تمام باتیں جو پہلے انبیاء کو دی تھیں اور ان کے معیار اتنے بلندنہیں تھے ان کو اس تعلیم میں کمال تک پہنچا دیا اور آپ پر قرآن شریف کی وہ شریعت اتاری گئی اور یہاں نبوت ختم ہو گئی۔ کوئی انسان یا بشر اس سے زیادہ اور مزید کمال تک پہنچ ہی نہیں سکتا تھا جوقرآنِ کریم کے ذریعہ سے پہنچ گیا اور وہ آنحضرتﷺ پر اترا۔ فرمایا کہ) ‘‘اس لئے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدۃ:4) کا مصداق اسلام ہوگیا۔ غرض یہ نشاناتِ نبوت ہیں۔ ان کی کیفیت اور کُنہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اصول صاف اور روشن ہیں اور وہ ثابت شدہ صداقتیں کہلاتی ہیں’’۔ فرمایا کہ ‘‘ان باتوں میں پڑنا مومن کو ضروری نہیں۔ ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر کوئی مخالف اعتراض کرے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں۔ اگر وہ بندنہ ہو تو ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ پہلے اپنے جزوی مسائل کا ثبوت دے’’۔ (اس کے جو مسائل ہیں ان کا تو ثبوت دے کہ وہ کس طرح حل کر رہا ہے۔) فرمایا کہ ‘‘الغرض مُہر نبوت آنحضرتﷺ کے نشان نبوت میں سے ایک نشان ہے’’۔ (یعنی آپ کا خاتم النبیین ہونا آپ کے نشانات میں سے ایک نشان ہے) ‘‘جس پر ایمان لانا ہر مسلمان مومن کو ضروری ہے’’۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 286-287۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اگر کوئی ختم نبوت کا منکر ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ پھر وہ مسلمان ہی نہیں۔ پھر وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
پھر ختم نبوت کے مقام اور اسلام کی برتری اور دوسرے مذاہب پر اس کی کیا فوقیت ہے، اس کو ثابت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘ختم نبوت کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں پر دلائل اور معرفت طبعی طور پر ختم ہو جاتے ہیں وہ وہی حد ہے جس کو ختم نبوت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملحدوں کی طرح نکتہ چینی کرنا بے ایمانوں کا کام ہے’’۔ فرمایا کہ ‘‘ہر بات میں بیّنات ہوتے ہیں’’۔ (کھلی کھلی باتیں ہوتی ہیں) ‘‘اور ان کا سمجھنا معرفتِ کاملہ اور نورِ بَصر پر موقوف ہے’’۔ (انسان کو کامل معرفت ہو، دین کا علم ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور بھی ملا ہو تبھی یہ سب چیزیں سمجھ آ سکتی ہیں) فرمایا کہ ‘‘رسول اللہﷺ کی تشریف آوری سے ایمان اور عرفان کی تکمیل ہوئی۔ دوسری قوموں کو روشنی پہنچی۔ کسی اور قوم کو بیّن اور روشن شریعت نہیں ملی۔ اگر ملتی تو کیا وہ عرب پر اپنا کچھ بھی اثر نہ ڈال سکتی’’۔ (باقی قوموں کو کامل شریعت ملی ہی نہیں۔ جو نبی آئے تھے وہ اپنے اپنے علاقے کے لئے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دلیل ہے کہ عربوں کو خداتعالیٰ کے بارے میں یا دین کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا اور جن کے علم میں بھی تھا، جن کے رابطے بھی تھے انہوں نے بھی نہیں مانا اس لئے کہ کامل شریعت نہیں تھی، کامل روشنی نہیں تھی۔ اگر پہلے دینوں میں کامل روشنی ہوتی تو عربوں پر بھی اثر پڑنا چاہئے تھا۔) فرمایا کہ ‘‘عرب سے وہ آفتاب نکلا کہ اُس نے ہر قوم کو روشن کیا اور ہر بستی پر اپنا نور ڈالا’’۔ (لیکن یہ آنحضرتﷺ کا مقام ہے۔ آپ وہ روشن سورج ہیں جنہوں نے ہر قوم کو روشن کیا۔ ہر جگہ ہر کونے میں ہر شہر میں آپ کا نور پہنچا۔ فرمایا کہ) ‘‘یہ قرآنِ کریم ہی کو فخر حاصل ہے کہ وہ توحید اور نبوت کے مسئلے میں کُل دنیا کے مذاہب پر فتح یاب ہو سکتا ہے’’۔ (توحید اور نبوت کے جو مسائل اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائے ہیں وہ ایسے دلائل ہیں جو پہلے کسی مذہب کو دئیے نہیں گئے۔ پس یہ مطلب ہے کہ شریعت کامل ہوگئی اور آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء کہلائے) فرمایا کہ ‘‘یہ فخر کامقام ہے کہ ایسی کتاب مسلمانوں کو ملی ہے۔ جو لوگ حملہ کرتے ہیں اور تعلیم و ہدایتِ اسلام پر معترض ہوتے ہیں وہ بالکل کور باطنی اور بےایمانی سے بولتے ہیں’’۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 283۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اسلام ہی ہے جو عرب سے نکلا اور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا اور آج تک اپنی اصل تعلیم کے ساتھ دنیا کے ہر کونے میں پھیل رہا ہے۔ اور آج جماعت احمدیہ اپنی تمام تر طاقتوں اور وسائل کے ساتھ توحید اور نبوت کے مقام کو دنیا کے ہر قصبہ اور گاؤں اور گلی میں پھیلا رہی ہے۔ پس ہم ہیں جو ختم نبوت کا اور آپ پر اتری ہوئی شریعت کا صحیح ادراک رکھنے والے ہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود ہی ہیں جنہوں نے دوسرے مذاہب کو آنحضرتﷺ کے مقام کے بارے میں کھول کر بتایا اور نہ صرف آپؐ کا مقام بتایا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ پہلے تمام انبیاء کی تعلیم اس قدر تبدیل ہوچکی ہے کہ ان نبیوں کے مقام اور سچائی کا پتا نہیں چل سکتا کہ وہ سچے بھی تھے یا نہیں۔ یہ بھی آپﷺ کا ہی مقام ہے جو پہلے انبیاء کی حقیقت اور سچائی بتائی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
‘‘تعلیم وہی کامل ہو سکتی ہے جو انسانی قُویٰ کی پوری مربی اور متکفل ہو۔ نہ یہ کہ ایک ہی پہلو پر واقع ہوئی ہو۔ انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ وہ کیا کہتی ہے اور اس کے بالمقابل قُویٰ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ انسانی قُویٰ اور فطرت خداتعالیٰ کی فعلی کتاب ہے’’۔ (انسان کے جو قویٰ ہیں اس کی جو فطرت ہے وہ خداتعالیٰ کی کتاب کا ایک عملی اظہار ہے) ‘‘پس اس کی قولی کتاب جو کتاب اللہ کہلاتی ہے یا اسے تعلیم الٰہی کہو اس کی ساخت اور بناوٹ کے مخالف اور متضاد کیونکر ہوگی؟ (اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جو اس کی قولی کتاب ہے جو ہدایت اتاری ہے جو تعلیم دی ہے وہ قرآنِ کریم ہے۔ کتاب اللہ کہلاتی ہے۔ اور فطری تعلیم جو انسانی حالتیں ہیں وہ اس کے خلاف نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ نے فرمایا کہ انسان کی جو فطرت ہے اور انسانی قویٰ کی جو حالت اور طاقت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی فعلی کتاب ہے اور شریعت اس کی قولی کتاب ہے) فرمایا ‘‘اسی طرح پر اگر رسول اللہﷺ نہ آتے تو انبیاء سابقین کے اخلاق، ہدایات، معجزات اور قوت قدسیہ پر اعتراض ہوتے مگر حضور (ﷺ) نے آکر ان سب کو پاک ٹھہرایا’’۔ (پہلے سب انبیاء کو تصدیق کیا) ‘‘اس لئے آپ کی نبوت کے نشانات سورج سے زیادہ روشن ہیں اور بےانتہا اور بےشمار ہیں۔ پس آپ کی نبوت یا نشاناتِ نبوت پر اعتراض کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ دن چڑھا ہوا ہو اور کوئی احمق نابینا کہہ دے کہ ابھی تو رات ہی ہے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ دوسرے مذاہب تاریکی ہی میں رہتے اگر اب تک رسول اللہﷺ نہ آتے۔ ایمان تباہ ہو جاتا اور زمین لعنت اور عذابِ الٰہی سے تباہ ہو جاتی۔ اسلام شمع کی طرح منور ہے جس نے دوسروں کو بھی تاریکی سے نکالا ہے۔ توریت کو پڑھو تو بہشت اور دوزخ کا پتا ہی ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انجیل کو دیکھو تو توحید کا نشان نہیں ملتا۔ اب بتلاؤ کہ اس میں تو شک نہیں کہ یہ دونوں کتابیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھیں اور ہیں لیکن ان میں کون سی روشنی مل سکتی ہے۔ سچی روشنی اور حقیقی نور جونجات کے لئے مطلوب ہے وہ اسلام ہی میں ہے۔ توحید ہی کو دیکھو کہ جہاں سے قرآن کو کھولو وہ ایک شمشیرِ برہنہ نظر آتا ہے کہ شرک کی جڑ کاٹ رہا ہے۔ ایسا ہی نبوت کے تمام پہلو ایسے صاف اور روشن نظر آتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر ممکن نہیں’’۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 282-283۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے ختم نبوت کا وہ اِدراک جو آپ نے ہمیں دیا۔ آجکل کے علماء آپس میں تو ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں لیکن یہ جرأت نہیں کہ دوسرے مذاہب کو ان کا چہرہ دکھا کر ان کی کمزوریاں دکھائیں اور آنحضرتﷺ کی برتری ثابت کریں۔ یہ کام حضرت مسیح موعودکی تربیت اور علم کی وجہ سے جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ان کی نظر میں ہم کافر اور یہ مومن۔
اپنے دعوے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے، اپنی ایک کتاب میں وضاحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ ‘‘کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے قرآنِ شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے؟ اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآنِ شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں بھی آنحضرتﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں؟ صاحبِ انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور غیرحقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں’’۔ (یعنی پھر اس کو کافر نہیں بناتا) ‘‘مگر مَیں اس کو بھی پسندنہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے۔ لیکن وہ مکالمات اور مخاطبات جو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے ان کو مَیں بوجہ مامور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا’’۔ (اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے اس لئے میں چھپا نہیں سکتا) ‘‘لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مُرسَل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے اور اصل حقیقت جس کی میں علی رؤوس الاشہاد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبیﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا۔ وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا وَسَیِّدِنَا اِنِّیْ نَبِیٌّ اَوْ رَسُوْلٌ عَلَی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ وَالْاِفْتِرَآءِ وَتَرَکَ الْقُرْاٰنَ وَ اَحْکَامَ الشَّرِیْعَۃِ الْغَرَّاءِ فَھُوَ کَافِرٌ کَذَّابٌ’’۔ فرمایا کہ ‘‘غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرتﷺ کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سرچشمہ سے جدا ہو کر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بننا چاہتا ہے تو وہ ملحد بےدین ہے۔ اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدّل کر دے گا۔ پس بلاشبہ وہ مسیلمہ کذّاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں۔ ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآنِ شریف کو مانتا ہے’’۔
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 27-28 حاشیہ)
پس آنحضرتﷺ کی غلامی اور آپؐ کی شریعت پر چلتے ہوئے جس کو اللہ تعالیٰ یہ اعزاز دیتا ہے اس کو تو اعزاز مل سکتا ہے دوسرے کو نہیں۔ اور نہ ہی کوئی آپ کی غلامی سے باہر جا کر مسلمان کہلا سکتا ہے۔
پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
‘‘ہم مسلمان ہیں اور ہم خداتعالیٰ کی کتاب فرقان مجید پر ایمان لاتے ہیں اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے آقا محمد رسول اللہﷺ خداتعالیٰ کے نبی اور اس کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ بہترین دین لے کر آئے۔ اور اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جس کی تربیت آپ (ﷺ) کے فیضان سے ہوئی ہو’’۔ (جس طرح کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ہوئی) ‘‘اور جس کا ظہور آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہوا اور اللہ تعالیٰ اس اُمّت کے اولیاء کو اپنے مکالمات اور مخاطبات سے مشرّف کرتا ہے اور انہیں انبیاء کے رنگ سے رنگین کیا جاتا ہے لیکن وہ حقیقی طور پر نبی نہیں ہوتے۔ کیونکہ قرآنِ کریم نے شریعت کی تمام ضروریات کو پورا کر دیا ہے۔ اور ان کو فہمِ قرآن عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ نہ تو قرآنِ کریم میں کسی قسم کا اضافہ کرتے ہیں اور نہ اس میں کوئی کمی کرتے ہیں۔ اور جس شخص نے قرآنِ کریم میں کوئی اضافہ کیا یا کوئی حصہ کم کیا تو وہ شیطانِ فاجر ہے۔
اور ختمِ نبوت سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمﷺ پر جو اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں تمام کمالات نبوت ختم ہوگئے ہیں۔ اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کے بعدنبوت کے مقام پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جو آپ (ﷺ) کی اُمّت میں سے ہو اور آپ کا کامل پَیرو ہو اور اس نے تمام کا تمام فیضان آپ (ﷺ) ہی کی روحانیت سے پایا ہو اور آپ کے نور سے منوّر ہوا ہو۔ اس مقام میں کوئی غیریت نہیں اور نہ ہی یہ غیرت کی جگہ ہے۔ اور یہ کوئی علیحدہ نبوت نہیں اور نہ ہی یہ مقام حیرت ہے۔ بلکہ یہ احمد مجتبیٰ ہی ہے جو دوسرے آئینے میں ظاہر ہوا ہے۔ اور کوئی شخص اپنی تصویر پر جسے اللہ نے آئینہ میں دکھایا ہو غیرت نہیں کھاتا۔ کیونکہ شاگردوں اور بیٹوں پر غیرت جوش میں نہیں آتی۔ پس جو شخص نبی کریمﷺ سے فیض پا کر اور آپ (ﷺ) میں فنا ہو کر آئے وہ دَرحقیقت وہی ہے کیونکہ وہ کامل فنا کے مقام پر ہوتا ہے اور آپ کے رنگ میں ہی رنگین اور آپ کی ہی چادر اوڑھے ہوتا ہے اور آپ (ﷺ) سے ہی اس نے اپنا روحانی وجود حاصل کیا ہوتا ہے۔ اور آپ (ﷺ) کے فیض سے ہی اس کا وجود کمال کو پہنچا ہوتا ہے۔ اور یہی وہ حق ہے جو ہمارے نبی کریمﷺ کی برکات پر گواہ ہے۔ اور لوگ نبی کریمؐ کا حسن ان تابعین کے لباس میں دیکھتے ہیں جو اپنی کمال محبّت و صفائی کی وجہ سے آپ کے وجود میں فنا ہوگئے۔ اور اس کے خلاف بحث کرنا جہالت ہے کیونکہ یہ تو آپ کے ابتر نہ ہونے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثبوت ہے۔ اور تدبّر کرنے والوں کے لئے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اور آپ (ﷺ) جسمانی طور پر تو مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اپنی رسالت کے فیضان کی رُو سے ہر اس شخص کے باپ ہیں جس نے روحانیت میں کمال حاصل کیا۔ اور آپ تمام انبیاء کے خاتَم اور تمام مقبولوں کے سردار ہیں۔ اور اب خداتعالیٰ کی درگاہ میں وہی شخص داخل ہو سکتا ہے جس کے پاس آپ (ﷺ) کی مُہر کا نقش ہو اور آپ کی سنّت پر پوری طرح سے عامل ہو۔ اور اب کوئی عمل اور عبادت آپ (ﷺ) کی رسالت کے اقرار کے بغیر اور آپ کے دین پر ثابت قدم رہنے کے بِدُوں خداتعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوگی۔ اور جو آپ (ﷺ) سے الگ ہو گیا اور اس نے اپنے مقدور اور طاقت کے مطابق آپ کی پیروی نہ کی وہ ہلاک ہو گیا۔ آپ کے بعد اب کوئی شریعت نہیں آ سکتی اور نہ کوئی آپ کی کتاب اور آپ کے احکام کو منسوخ کر سکتا ہے اور نہ کوئی آپ کے پاک کلام کو بدل سکتا ہے۔ اور کوئی بارش آپ کی موسلا دھار بارش کی مانندنہیں ہو سکتی’’۔ (یعنی روحانی بارش) ‘‘اور جو قرآنِ کریم کی پیروی سے ذرہ بھر بھی دُور ہوا وہ ایمان کے دائرے سے خارج ہوگیا۔ اور اس وقت تک کوئی شخص ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا جبتک وہ ان تمام باتوں کی پیروی نہ کرے جو آنحضرتﷺ سے ثابت ہیں۔ اور جس نے آپ (ﷺ) کے وصایا میں سے کوئی چھوٹی سی وصیت بھی ترک کر دی تو وہ گمراہ ہوگیا۔ اور جس نے اِس اُمّت میں نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ اعتقادنہ رکھا کہ وہ خیرالبشر محمد مصطفیٰ کا ہی تربیت یافتہ ہے اور آپ (ﷺ) کے اُسوۂ حسنہ کے بغیر ہیچ محض ہے’’۔ (کوئی حیثیت نہیں اس کی) ‘‘اور یہ کہ قرآنِ کریم خاتم الشرائع ہے تو وہ ہلاک ہوگیا۔ اور وہ کافروں اور فاجروں میں جا ملا۔ اور جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ اعتقادنہ رکھا کہ وہ آپ (ﷺ) ہی کی اُمّت میں سے ہے اور یہ کہ جو کچھ اس نے پایا ہے وہ آپ (ﷺ) ہی کے فیضان سے پایا ہے اور یہ کہ وہ آپ (ﷺ) ہی کے باغ کا ایک پھل اور آپ ہی کی موسلا دھار بارش کا ایک قطرہ اور آپ (ﷺ) ہی کی روشنی کی ایک کرن ہے تو وہ ملعون ہے۔ اور اس پر اور اس کے ساتھیوں پر اور اس کے اَتباع اور مددگاروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو’’۔ (تو یہ لعنت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے اوپر یا جماعت پر تو نہیں بھیج رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو سب سے زیادہ روحانی فیض آنحضرتﷺ سے پہنچا اور آپ ہی اس مقام پر پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کی اِتّباع میں غیر شرعی نبوت کا اعزاز دیا)
آپ فرماتے ہیں: ‘‘آسمان کے نیچے محمد مجتبیٰﷺ کے سوا ہمارا کوئی نبی نہیں اور قرآنِ کریم کے سوا ہماری کوئی کتاب نہیں اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی وہ اپنے آپ کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے گیا’’۔
(مواہب الرحمان روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 285 تا 287 عربی سے اردو ترجمہ۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ
(سورۃالاحزاب زیرآیت 41) جلد 3 صفحہ 699تا 701)
آپ نے بےشمار جگہ کھول کھول کر ختم نبوت کی حقیقت اور اس کے مقام اور اس کے مقابل اپنے مقام اور حیثیت کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر مسلمان دین پر قائم ہوتے اور آنحضرتﷺ کے حقیقی متبع ہوتے تو میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ چنانچہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
‘‘دنیا کی مثالوں میں سے ہم ختمِ نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پر آکر اس کا کمال ہو جاتا ہے جبکہ اسے بدر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پر آنحضرتﷺ پر آکر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے۔ جو لوگ یہ مذہب رکھتے ہیں کہ نبوت زبردستی ختم ہوگئی اور آنحضرتﷺ کو یونس بن متّی پر بھی ترجیح نہیں دینی چاہئے انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں اور آنحضرتﷺ کے فضائل اور کمالات کا کوئی علم ہی اُن کو نہیں ہے۔ باوجود اس کمزوریٔ فہم اور کمیٔ علم کے ہم کو کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں’’۔ (خود تو ان کو سمجھ نہیں آئی لیکن ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں۔) فرمایا کہ ‘‘مَیں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اور ان پر کیا افسوس کروں۔ اگر ان کی یہ حالت نہ ہوگئی ہوتی اور وہ حقیقتِ اسلام سے بکلّی دُور نہ جا پڑے ہوتے’’۔ (آجکل مسلمانوں کی یہ جو حالت ہے اگر یہ نہ ہوئی ہوتی اور ان کو اسلام کی حقیقت کا کوئی پتا ہی نہیں۔ اس سے دور نہ ہٹ گئے ہوتے تو فرمایا) ‘‘تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی؟’’ (اگر ان میں ایمان سلامت ہوتا اور ان کی روحانیت صحیح ہوتی تو فرمایا تو پھر میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟) ‘‘ان لوگوں کی ایمانی حالتیں بہت کمزور ہوگئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اہلِ حق سے عداوت کرتے جس کا نتیجہ کافر بنا دیتا ہے’’۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 342-343۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یعنی جو حق پر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے اور آنحضرتﷺ پر کامل ایمان و یقین رکھتا ہے اس سے عداوت و دشمنی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ کی جاتی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دشمنی کی جاتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سے دشمنی کرنا پھر کافر بنا دیتا ہے۔ پس یہ لوگ کیونکہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور مسلمان کلمہ گو کو کافر کہنے والا اسے دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ خود آنحضرتﷺ کی حدیث بھی اس بارہ میں ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان و نقصانہ حدیث 4687)۔ پس یہ لوگ جو ہمیں کافر کہتے ہیں خود اس الزام کے نیچے آ جاتے ہیں اس لئے ہمدردی کے جذبے سے ہم ان کلمہ گوؤں سے یہی کہتے ہیں کہ اپنی حالتوں پر رحم کرو اور دیکھو اور سمجھو کہ خداتعالیٰ کیا چاہتا ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟
حضرت مسیح موعودکے یہ چند حوالے جو مَیں نے پیش کئے ہیں کاش یہ شریف الطبع مسلمانوں کے لئے ہدایت کا باعث بن جائیں اور وہ ہم پر الزام لگانے کی بجائے اپنی حالتوں کو دیکھیں۔ پاکستان کی اسمبلی میں قانون بنانے کے الفاظ کے بارے میں ان کے جو آپس کے معاملات طے تھے ان کے طے ہو جانے کے بعد پھر چند دن پہلے ایک ممبر اسمبلی نے بلا وجہ ایک اشتعال دلانے والی تقریر کی ہے۔ یہ صرف اسمبلی کے ممبران کو جھوٹی غیرت دلانے کے لئے نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ہی عوام کو بھڑکانے اور ملک میں فساد پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی تا کہ احمدیوں کے خلاف سارے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور اس کی یہ بھی کوشش تھی کہ اپنے آپ کو ملک کا بڑا وفادار لیڈر ثابت کرے تا کہ اس کی سیاسی زندگی کو شاید کوئی نئی زندگی مل جائے۔ لیکن اس پر وہاں کے بعض عقل رکھنے والے سیاستدانوں اور میڈیا کے لوگوں نے اور شریف طبقے نے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس لئے ہمیں اس لحاظ سے بھی امید رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں شرفاء کا ایسا طبقہ ہے جس نے غلط کام کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی ہے اور ان لوگوں نے پھر اس کو حقائق بھی بتائے کہ تم جو جو اعتراض کررہے ہو اس میں حقیقت کیا ہے؟
اپنی طرف سے بڑا میدان مارنے والے اس ممبر اسمبلی نے کہا کہ ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ قائداعظم یونیورسٹی میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کا نام ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نام پر رکھا جائے کیونکہ وہ کافر ہیں۔ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔
ان کو یہ سوچنا چاہئے جس نے یہ نام رکھا ہے وہ بھی تو خود ان کی اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم تھے اور صدر تھے۔ اور یہی نہیں بلکہ اس ممبر اسمبلی کے سسر بھی ہیں۔ اس وقت کیوں نہ غیرت دکھائی اور اس وقت کیوں نہ غیرت کا اظہار کیا جب یہ سب کچھ رکھا جا رہا تھا۔ صرف اس لئے کہ اب کیونکہ اس پارٹی پر الزام لگ رہا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو کچھ منہ میں آتا ہے بولتے چلے جاؤ۔
باقی جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نام رکھا ہے یا نہیں رکھا۔ بلکہ جس دن یہ نام رکھا گیا تھا اسی دن ڈاکٹر سلام مرحوم کے قریب ترین جو لوگ ہیں، ڈاکٹر سلام صاحب مرحوم کے بیٹے نے اور ان کی تمام اولادنے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا تھا جس کا جواب نہیں آیا کہ ہمیں حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بیس سال کے بعد پاکستان کی حکومت کو یہ خیال آیا کہ پاکستان کے اس نامور سائنسدان کے نام پر کسی ڈیپارٹمنٹ کا نام رکھا جائے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ باوجود اس کے کہ میرے باپ کو پاکستان کے آئین نے غیرمسلم قرار دیا تھا اور اس بات کا انہیں صدمہ بھی تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی بلکہ ان کو برطانیہ، اٹلی حتیٰ کہ انڈیا کی طرف سے بھی شہریت دینے کی پیشکش ہوئی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ مَیں ہمیشہ سے پاکستان کا وفادار تھا اور ہمیشہ پاکستان کا وفادار رہوں گا اور اس کی بہتری کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہوں گا اور وہ کرتے بھی رہے۔ بہرحال خلاصہ یہ کہ ڈاکٹر سلام صاحب کے بچوں نے اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان کو لکھا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں جماعت احمدیہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تعلق ہے۔ ہم نے مسیح موعود کو مانا ہے۔ اس لئے ہم جو سلام خاندان کے افراد ہیں، ڈاکٹر سلام کے جو بچے ہیں، حکومت کے اس فیصلے پر خوشی کے اظہار کے بجائے اس لئے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے حقوق پاکستان میں ادا نہیں کئے جا رہے۔ جو ہم کہتے ہیں وہ ہمیں سمجھا نہیں جاتا۔ اپنے آپ کو اس سے Disassociate کرتے ہیں۔ تو یہ تو ڈاکٹر سلام صاحب کے بچوں کا ردِّعمل تھا۔
اگر پاکستان کی اسمبلی یہ نام بدلنا چاہتی ہے تو بڑی خوشی سے بدلے۔ سلام خاندان کو یا جماعت احمدیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پھر کہتے ہیں کہ احمدیوں کو فوج میں بھرتی نہیں کرنا چاہئے۔ آج تک کی پاکستان کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ احمدی جتنے بھی فوج میں گئے انہوں نے ملک کی خاطر ہر قربانی دی۔ عام طور پر سپاہی یا جونیئر کمشنڈ افسر یا زیادہ سے زیادہ کرنل میجر تک کے لوگ قربانیاں دیتے ہیں۔ لیکن احمدی وہ ہیں جن کے لوگ جنرل کے رینک تک بھی پہنچے تو اگلے مورچوں پر رہے اور شہید بھی ہوئے تو احمدی جنرل۔ اس کو آجکل پاکستانی میڈیا بھی زیرِبحث لا رہا ہے۔ حقائق سامنے ہیں۔ وہ کہتے ہیں تم یہ کیا باتیں کرتے ہو اور انہوں نے پھر جنرل اختر کے، جنرل علی کے نام لئے۔ میڈیا میں نام لیاجا رہا ہے جنرل افتخار کا جو شہید ہوئے تھے۔ اور یہ ممبر صاحب جنہوں نے بڑی دھواں دار تقریر کی تھی یہ تو فوج میں کیپٹن کے عہدے تک پہنچے اور پھر وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کا داماد بننے کی وجہ سے فوج سے استعفیٰ دے دیا اور پیسے کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور سیاست میں آ گئے۔ اگر حبّ الوطنی کا جذبہ تھا تو پھر ان کو فوج میں رہنا چاہئے تھا اور ملک کی خاطر قربانی دینی چاہئے تھی۔
اسی طرح احمدیوں پر یہ اعتراض کئے جاتے ہیں کہ یہ قوم کی خدمت نہیں کرتے۔ یہ قوم کے وفادار نہیں ہیں۔ لیکن مَیں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج پاکستان میں احمدی ہی ہیں جو حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَان پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنا جان مال قربان کرنے والے ہیں اور کر رہے ہیں۔ سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے صرف تقریریں کرنے والے نہیں ہیں اور نہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق ہے۔ ہم مذہب کی خاطر جان دینے والے تو ہیں لیکن مذہب کے نام پر سیاست چمکانے والے اور مذہب کے نام پر خون کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین تو مانتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں اور آپ کی ناموس کی خاطر ہر قربانی دیتے ہیں اور دینے کے لئے تیار ہیں اور دے رہے ہیں اور ان شاءاللہ دیتے رہیں گے۔ ہر پاکستانی احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ یہ دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو جس کی خاطر احمدیوں نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں اور ابتدا سے لے کر اب تک قربانیاں دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ سلامت رکھے اور ظالم جابر لیڈروں اور مفاد پرست علماء سے اسے بچائے اور دنیا کے آزاد اور باوقار ملکوں میں پاکستان کا بھی شمار ہونے لگے۔
(الفضل انٹرنیشنل 3 نومبر 2017ء)

(اخبار احمدیہ جرمنی ستمبر 2024ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد