قسط سوم

چند دن مایوسی اور افسردگی کے بادل چھائے رہے لیکن آخر کب تک۔ بہرحال ایک دن باہر نکلنا تھا اور زندگی کی نئی دوڑ میں شامل ہونا تھا۔ جو صلاح مشورے ہوئے اس میں فیصلہ یہی ہوا کہ میں تلاش روزگار کے لئے کراچی چلا جاؤں چنانچہ ماہ فروری 1972ء کے آخری ایام تھے کہ مَیں ایک چھوٹا صندوق لیے تین تعارفی خطوط جیب میں ڈال کر ربوہ سے جرمنی کی بجائے کراچی کے لئے روانہ ہوا۔ ان تین تعارفی خطوط میں سے ایک تو میرے والد کا مکرم ظفر چودھری صاحب کے نام خط تھا جو ان دنوں قومی ائیرلائن کے چیئرمین تھے۔ دوسرا خط استاذی المحترم ڈاکٹر پروازی صاحب کا مکرم کنور ادریس صاحب کے نام تھا جو ان دنوں کراچی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور تیسرا خط استاذی المحترم چودھری محمد علی صاحب کا مکرم حبیب اللہ بٹ صاحب کے نام تھا جو بروک بانڈ کمپنی کے غالباً مینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر تھا۔ چھوٹے شہروں اور قصبات میں رہنے والے شہریوں پر اس کا ایک رُعب تھا۔ کراچی سے مرعوب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چھوٹے شہروں کے جو لوگ کراچی کو سدھارے وہ سالانہ تعطیلات پر گھر آتے تو ان کی بیان کردہ کہانیاں پُرکشش لگتیں۔ مثلاً کراچی شہر میں ریلوے کے ایک سے زائد اسٹیشن کی موجودگی مجھے ورطۂ حیرت میں ڈالتی تھی۔ کراچی اُترا تو اس کو واقعی پنجاب کے شہروں سے مختلف پایا۔ میں وہاں ابھی سنبھل نہ پایا تھا کہ ایک صبح اس خبر کی گونج میرے کانوں سے ٹکرائی کہ ظفر چودھری صاحب کو پاک فضائیہ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ مَیں جو کراچی کے راستوں سے ناواقف تھا اس خبر کے کان میں پڑتے ہی کراچی ایئرپورٹ کی طرف بھاگا۔ پی آئی اے ہیڈکوارٹر کا پتہ کیا۔ وہاں پہنچا تو معلوم پڑا کہ چودھری صاحب مڈ وے ہاؤس میں میٹنگ میں مصروف ہیں۔ مڈ وے ہاؤس کا پتہ معلوم کرکے وہاں پہنچا تو گہرے شیشہ کی شاندار صاف ستھری عمارت دیکھ کر جس کے ہر دس قدم پر تازہ پھولوں کے گملے مزین تھے حیرت میں ڈوب گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی دیدہ زیب لابی تھی جس میں دو طرف سے کشادہ سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں۔ وہاں موجود سٹاف کو اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے اوپر سے نیچے تک مجھے دیکھا اور کہا کہ یہ خط ہمیں دے دیں۔ مَیں نے اصرار کیا کہ یہ خط میں ظفر چودھری صاحب کے ہاتھ میں دوں گا۔ نوجوان افسر نے مجھے کہا کہ آپ اس آخری Step کے پاس موجود رہیں جب وہ میٹنگ کے بعد نیچے اتریں گے تو آپ نے آگے بڑھ کر ان سے مخاطب ہونا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا چودھری صاحب کے ساتھ قومی ائیرلائن کے افسران کی ایک خاصی تعداد تھی۔ مَیں نے ذرا بلند آواز میں سلام عرض کیا۔ چودھری صاحب نے میری طرف دیکھا تو مَیں نے یہاں آنے کی غرض بیان کی۔ چودھری صاحب نے والد صاحب کا خط میرے ہاتھ سے لے کر وہاں ہی کھول کر پڑھا۔ اپنے ایک ساتھی سے انگریزی زبان میں مخاطب ہوئے اس خط پر کچھ مختصر لکھ کر اپنے اسی ساتھی کو دے کر مجھ سے کہا کہ مَیں نے پی آئی اے کا چارج ابھی دو منٹ پہلے چھوڑ دیا ہے۔ اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرکے کہا ان کے ساتھ رابطہ میں رہیں۔ وہ افسر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ وہ ابھی مجھ سے بات کرتے ہیں۔ آنکھ جھپکنے کے اس منظر کے بعد افسران کا وہ جمِ غفیر ظفر چودھری صاحب کو الوداع کہنے کار پورچ تک چلا گیا۔ الوداع کرنے کا وہ قابلِ رشک منظر ابھی تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ چودھری صاحب کو رخصت کرکے متعلقہ افسر میری طرف آئے۔ وہ خط انہوں نے دوبارہ پڑھا اور میرا کراچی میں رابطہ کے لئے ایڈریس پوچھ کر اسی خط پر نوٹ کر لیا۔ دو ہفتے بعد ڈاک میں جواب موصول ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ‘‘قومی ائیرلائن آپ کے بغیر بھی بہت اچھی چل رہی ہے’’ یہ تو تھا پہلے سفارشی خط کا حشر۔ باقی دو کے انجام کی روئیداد سے قبل ظفر چودھری سے پہلی اتفاقیہ ملاقات کا احوال قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
مَیں جب نویں یا دسویں جماعت کا طالبِ علم تھا تو میری والدہ معدہ کی کسی تکلیف میں مبتلا ہوگئیں۔ فضل عمر ہسپتال کے علاج کے علاوہ ربوہ میں جو معالجین موجود تھے ان کی بھی مدد حاصل کی گئی۔ جب افاقہ نہ ہوا تو کسی نے سرگودھا میں ایک ماہر ڈاکٹر ابوالحسن کو دکھانے کا مشورہ دیا۔ والد صاحب روزنامہ سے منسلک تھے صبح کے اوقات میں بہت زیادہ مصروف ہوتے۔ ایک روز اخبار کی کاپی طباعت کے لئے پریس کے حوالے کرنے کے بعد سرگودھا کا سفر اختیار کیا گیا۔ والد صاحب مجھے بھی ساتھ لے گئے کہ بچے کی سیر ہو جائے گی۔ جب ہم ڈاکٹر ابوالحسن کے کلینک پہنچے تو کڑاکے کی دوپہر ہو چکی تھی۔ کلینک کو ہم نے بند پایا اور اب اس نے شام پانچ بجے دوبارہ کھلنا تھا۔ ہم باپ بیٹے کے سامنے یہ سوال کھڑا تھا کہ دوپہر کہاں گزاری جائے۔ ہم بِن بلائے مہمان سکواڈرن لیڈر محترم رشید قیصرانی صاحب کے ہاں جا پہنچے۔ انہوں نے ابتدائے جوانی میں ایک سال الفضل میں گزارا تھا۔ اس روز قیصرانی صاحب نے بتایا کہ سرگودھا بیس کے نئے اسٹیشن کمانڈر ائیر کموڈور ظفر چودھری کا تعلق بھی اپنے قبیلہ سے ہے۔ اس پر والد صاحب نے اپنے میزبان کو بتایا کہ ظفر چودھری اپنے دَور طالب علمی میں میرے شاگرد رہے ہیں۔ میں دہلی میں دو سال تک ان کے مکان پر روزانہ حاضر ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب مجھے ان سے ملے ایک زمانہ گزر چکا۔ قیصرانی صاحب نے والد صاحب سے پوچھ کر چودھری صاحب سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ چودھری صاحب نے ملنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ چنانچہ ہم ان کے مکان پر حاضر ہوئے۔ وہ دونوں دہلی کے زمانہ کو یاد کرتے رہے اور مَیں محوِ حیرت ان کو تکتا رہا۔ البتہ اس شام پینے والے سکواش کا مزہ آج بھی زبان پر محسوس کرتا ہوں۔ جن دنوں سیّد قاسم رضوی کمشنر سرگودھا تھے وہ مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب سے اپنی دوستی کا فائدہ اٹھا کر اپنی ادبی پیاس بجھانے اکثر ربوہ آ جایا کرتے تو کئی بار ان کو ظفر چودھری کی رفاقت میسر ہوتی البتہ چودھری صاحب سے گفتگو کا موقعہ ان کے حقوق انسانی کی انجمن HRCP کے دفتر میں ملنا شروع ہوا۔ ایک بار کراچی ائیرپورٹ پر جہاز کے انتظار میں لاؤنج میں بیٹھا تھا تو وہاں ظفر چودھری کے والد چودھری بشیر احمد صاحب مرحوم کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے جا ملا۔ انہوں نے میرے دادا کے اس قدر واقعات بیان کئے کہ مجھے لگا یہ فیملی سیالکوٹ سے زیادہ دہلی میں رہائش پذیر رہی ہے۔

دوسرا تعارفی خط

دوسرا تعارفی خط مکرم کنور ادریس صاحب ڈپٹی کمشنر کراچی کے نام تھا۔ وہ جمعہ کی نماز احمدیہ ہال کی آخری صفوں میں ادا کرتے تھے اور جلد اپنی فوکس ویگن پر بیٹھ کر چلے جاتے۔ ایک جمعہ ان کے پہلو میں نماز ادا کی اور عرض کی کہ ڈاکٹر پروازی صاحب کا خط آپ کی خدمت میں پیش کرنا ہے۔ انہوں نے اتوار گیارہ بجے مکان پر آنے کو کہا، مَیں حسبِ ہدایت ان کی سرکاری رہائش گاہ پر حاضر ہوگیا۔ مجھ سے پہلے دو نوجوان وہاں موجود تھے۔ ان سے فارغ ہو کر کنور ادریس صاحب میری طرف متوجہ ہوئے۔ اس دوران میں ان کی غیرمتوقع مہمان نوازی چائے کی پیالی سے فارغ ہوچکا تھا۔ خط پڑھ کر جو کھری بات انہوں نے کی وہ گو میرے اس وقت کے حالات میں مجھے اچھی نہ لگی ہو لیکن عملاً وہی ہوا جس کا انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ ان دنوں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے بعد نئی نئی سیاسی حکومتیں قائم ہوئی تھیں اور سیاست دان اپنے سیاسی کارکنوں کو نوکریاں دلوانے کے لئے کافی دباؤ میں تھے۔ مکرم کنور ادریس صاحب نے کہا روزانہ اخبارات کا مطالعہ کرکے ملازمت کے اعلانات غور سے پڑھوں اور جہاں بھی حصول ملازمت کے لئے درخواست لکھوں وہ درخواست پہلے کنور ادریس صاحب کے پاس ان کے دفتر لے کر آؤں۔ وہ اس درخواست پر سفارشی ریمارکس لکھ دیں گے۔
میں جب بھی اس کام کے لئے ان کے پاس حاضر ہوا انہوں نے کبھی مجھے انتظار نہیں کروایا۔ فوراً اندر بلا لیتے۔ حصولِ ملازمت کی درخواست پڑھتے اور اسی کے مطابق ریمارکس لکھ کر مجھے واپس کر دیتے۔ نوکری دینا ان کے اختیار میں نہیں تھا لیکن جس بات سے میں بےحد متاثر ہوا وہ ان کا حسنِ سلوک تھا۔ ایک تو وہ کتنے بھی مصروف ہوں مجھے کبھی انتظار نہیں کروایا۔ دوسرے ہمیشہ کامیابی کی دعا دے کر رُخصت کیا جس سے میری ہمت بندھتی اور مَیں نے ایک ایسی نیکی کا عمل سیکھ لیا جو زندگی بھر میرے کام آیا۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک یونہی چلتا رہا کنور ادریس صاحب نے ایک بار بھی اکتاہٹ نہیں دکھائی بلکہ ایک دو بار متعلقہ کمپنی میں فون بھی کیا۔ ایک بار میرے ہاتھ سے درخواست پکڑتے ہی بےاختیار پکار اُٹھے نیشنل شپنگ کارپوریشن۔ فوراً فون ملایا اور مخاطب شخص سے بہت دوستانہ انداز میں گفتگو کی اور اس کو بتایا کہ میں ایک درخواست پر اپنا نوٹ تحریر کر رہا ہوں اس کو انٹرویو کی کال ضرور آنی چاہیے۔ فون بند کرکے مجھے بھی تسلی دی کہ نیشنل شپنگ میں میرا سول سروس کا ساتھی ہے اب آپ کا کام ہو جائے گا۔ ان کے اندازِتکلّم میں جو پُراعتمادی تھی اس سے مجھے بھی لگا کہ امتحان کے دن اب ختم ہونے کو ہیں۔ لیکن قدرت مجھے جرمنی لے جانے کا فیصلہ کر چکی تھی
صرف وسیلہ کی راہ ہموار ہونا باقی تھا۔ چند دن بعد دوبارہ کنور ادریس صاحب کے پاس درخواست لے کر حاضر ہوا تو ذرا حیرانگی سے پوچھنے لگے نیشنل شپنگ والوں کی طرف سے انٹرویو کی کال نہیں آئی۔ میرا جواب سُن کر ان کے چہرے پر مایوسی کا تأثر ابھرا۔ میرے کاغذات سامنے رکھ کر سوچوں میں گم ہوگئے پھر ٹیلی فون کی طرف ہاتھ بڑھایا، رسیور پکڑا چند سیکنڈ کے توّقف کے بعد واپس رکھ دیا اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے۔ آپ پاسپورٹ بنوا لیں، اس میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں پھر باہر قسمت آزمائیں۔ میں نے جوابا ًعرض کی پاسپورٹ تو بنا ہوا ہے۔ باہر جانے میں حالات اور وسائل رکاوٹ ہیں۔ کنور ادریس صاحب نے کہا باہر جانے کی کوشش جاری رکھیں اللہ آپ کی مدد کرے۔ کنور ادریس صاحب کی دعا کس طرح پوری ہوئی اس کی تفصیل تیسرے خط کی آپ بیتی کے بعد بیان کروں گا۔ اس واقعہ کے کم و بیش چالیس سال بعد مکرم نواب مودود احمد خان صاحب کی شفقت کی بدولت کراچی کلفٹن کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی تو صف میں میری برابر والی کرسی پر جو ادھیڑ عمر بزرگ جن کی آنکھوں کی بھنویں بھی سفید ہوچکی تھیں تشریف فرما تھے مَیں ان کو دیکھتے ہی پہچان گیا اور ان کے احسانات کو یاد کرکے میری آنکھیں چھلک آئیں۔ یہ میرے محسن محترم کنور ادریس تھے۔ (باقی آئندہ، ان شاءاللہ)

متعلقہ مضمون

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

  • نُورِ ہدایت